غزہ کے مسئلے پر کشیدگی کے خاتمے کی امیدیں بڑھنے کے بعد خطے میں نیا موڑ سامنے آنے لگا ہے۔ اس پس منظر میں سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی متحرک سفارت کاری علاقائی امن کے قیام اور سیاسی اعتماد کی بحالی کی بنیاد بنتی دکھائی دے رہی ہے۔
بحران کے آغاز سے ہی ریاض ایک مؤثر علاقائی طاقت کے طور پر ابھرا، جو مذاکرات کے ذریعے ایسا متوازن حل تلاش کر رہا ہے جو شہریوں کی تکالیف ختم کرے اور پائیدار استحکام کی راہ ہموار کرے۔
یہ بھی پڑھیے: سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان کن شعبوں میں تجارت اور سرمایہ کاری ہو رہی ہے؟
سعودی کوششیں مصر، قطر اور اقوامِ متحدہ کے ساتھ قریبی رابطے میں جاری ہیں تاکہ فریقین کے درمیان اختلافات کم کر کے جنگ بندی کو عملی شکل دی جا سکے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی موقف انصاف، باہمی احترام اور شہریوں کے تحفظ پر مبنی اصولی موقف ہے، جس میں فلسطینی اداروں کو بااختیار بنانے اور تعمیرِ نو کے عمل کو سیاسی یا عسکری دباؤ سے آزاد رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔
خلیجی ممالک نے بھی فوری امداد، انسانی منصوبوں کی مالی معاونت اور سفارتی کوششوں کے ساتھ بھرپور یکجہتی دکھاتے ہوئے ایک متفق اور ہم آہنگ مؤقف پیش کیا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ پائیدار حل صرف انسانی تحفظ اور عزتِ نفس کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔
یہ بھی پڑھیے: حماس کے فیصلے کا خیر مقدم، مسلم وزرائے خارجہ کا واضح پیغام
جیسے جیسے قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے جزوی معاہدوں کی خبریں سامنے آ رہی ہیں، سعودی عرب کا کردار خطے میں سب سے زیادہ نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ اپنی سیاسی، معاشی اور سفارتی طاقت کے توازن کے باعث ریاض عرب دنیا کے ردعمل کو قائدانہ اقدام میں بدل رہا ہے، تاکہ غزہ اور پورے مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک محفوظ اور مستحکم مستقبل یقینی بنایا جا سکے۔














