ایک گرفتار افغان دہشتگرد کے اعترافات سامنے آئے ہیں جس میں اس نے بتایا ہے کہ اسے کیسے پاکستان میں دہشتگردی کے لیے تیار کیا گیا۔
اگرچہ افغانستان دوسروں پر دہشتگردی کا الزام عائد کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خود دہشتگردی کی نرسری ہے، اور اس کے شہری دہشتگردی میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک افغان دہشتگرد امراللہ کے اعتراف جرم پر مبنی ویڈیو کلپ منظرعام پر آیا ہے جس میں وہ بتاتا ہے کہ اس کے والد کا نام سید عارف ہے جو کہ ایک ریٹائرڈ استاد ہیں۔
یہ بھی پڑھیے افغانستان سے اٹھنے والی دہشتگردی کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے: پاک فوج
اس نے بتایا ‘میں مارکی خیل، ضلع ننگرہار کا رہنے والا ہوں۔ میری عمر 39 سال ہے۔ میرے 2 بھائی اور 5 بہنیں ہیں۔ میں شادی شدہ ہوں اور میرے 7 بچے ہیں۔ میں نے دینی تعلیم کے لیے مدرسہ عبداللہ ابن مسعود میں داخلہ لیا لیکن 2002 میں مدرسہ چھوڑ دیا۔ اور قیمتی پتھروں کا کام شروع کردیا۔ اس کے علاوہ ایک ٹھیکیدار کے ساتھ منشی کے طور پر بھی کام کیا۔‘
اس نے مزید بتایا کہ اس کا چچا حکمت اللہ 2016 سے داعش کے کاموں اور ٹارگٹ کلنگ میں شامل تھا۔ 2020 میں اس نے امراللہ کو داعش میں شامل ہونے کو کہا۔
’کچھ عرصہ بعد میں نے داعش کی بیعت کرلی۔اور اپنے چچا کے ساتھ ٹارگٹ کلنگ کرنے والوں میں شامل ہوگیا۔‘
امراللہ کے مطابق ’میری پہلی ٹارگٹ کلنگ خوگیانو میں اربکیان کمیٹی کے ایک رکن کی تھی۔ پھر 2021 کے شروع میں، میں نے امریکی فوج کے ایک مخبر کو قتل کیا۔ اس کے بعد 2021 کے وسط میں افغان حکومت کے ایک مخبر کی ٹارگٹ کلنگ کی۔ ان تمام ٹارگٹ کلنگ کی ذمہ داری داعش نے اپنے ٹیلی گرام چینل پر قبول کی۔‘
یہ بھی پڑھیے امیر خان متقی کا دورہ بھارت، کیا افغان حکومت دہشتگردی کے لیے اب بھارت کی پراکسی کا کردار ادا کرےگی؟
اس نے بتایا: ’اسی دوران میرے استادوں نے کہا کہ مجھے جہاد کے لیے پاکستان بھیجنا ہے۔ اس معاملے پر کافی دن بحث ہوتی رہی کیونکہ کچھ استادوں کا خیال تھا کہ پاکستان میں بہت سختی ہے اور کام کرنا مشکل ہے۔ 2021 میں سپین بولدک کے راستے داعش نے مجھے پاکستان بھیجا۔‘
ویڈیو کلپ سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ امراللہ کے اعترافات کا پہلا حصہ ہے۔ اس کے مزید اعترافات بھی سامنے آئیں گے جس میں بتایا جائے گا کہ وہ پاکستان میں کیسے اور کہاں دہشتگردی میں ملوث رہا۔













