جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کا جوڈیشل کونسل کو لکھا گیا خط منظرعام پر آ گیا

منگل 21 اکتوبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کا جوڈیشل کونسل کو لکھا گیا خط منظرعام پر آ گیا ہے۔

یہ خط 17 اکتوبر کو ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں مجوزہ ترامیم کے تناظر میں سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کیا گیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ دونوں ججز نے جوڈیشل کونسل کے اجلاس سے ایک روز قبل اپنے تحریری کمنٹس اجلاس کے آغاز میں جمع کروائے تھے۔

یہ بھی پڑھیے: ججز میڈیا پر بات نہیں کر سکیں گے، سپریم جوڈیشل کونسل نے ترمیم شدہ ضابطہ اخلاق جاری کردیا

انہوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی اور خراب انٹرنیٹ کے باوجود اپنا مؤقف پیش کرنے کی کوشش کی۔ ججز نے خط میں مزید بتایا کہ اجلاس کے بعد 20 اکتوبر کو دستخط شدہ کاپی جمع کروانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔

متن کے مطابق قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس میں ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ پر ہونے والی غیر آئینی پیشرفت کے بعد یہ خط تحریر کیا گیا۔ ججز نے مؤقف اپنایا کہ ججز کوڈ آف کنڈکٹ کا معاملہ خالصتاً سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، لہٰذا کسی اور فورم پر اس پر بات کرنا آئین کے منافی ہے۔

ججز نے خط میں مؤقف اپنایا ہے کہ کونسل اجلاس سے قبل ان کے 13 اکتوبر کے خط کا معاملہ طے کیا جانا چاہیے تھا، جس میں جوڈیشل کونسل کا اجلاس مؤخر کرنے یا اس کی تشکیلِ نو کی تجویز دی گئی تھی۔

خط میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے خلاف کیس اس وقت سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے، اور اس کیس کا فیصلہ ان کی کونسل میں شمولیت کو براہِ راست متاثر کر سکتا ہے۔ ججز نے مؤقف اپنایا کہ جب تک کونسل کی آئینی حیثیت واضح نہیں ہوتی، اس کے فیصلوں کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھتے رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیے: ججز خط ازخود نوٹس: ایسے ججز کو جج نہیں ہونا چاہیے جو مداخلت پر کچھ نہیں کرتے، چیف جسٹس

خط میں کہا گیا کہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو نکال کر کونسل کی تشکیلِ نو کی جانی چاہیے تھی۔ ججز نے خبردار کیا کہ اگر ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں مجوزہ ترامیم منظور کر لی گئیں تو یہ عدلیہ کی آزادی کو محدود کر دیں گی۔

انہوں نے یاد دلایا کہ 26ویں آئینی ترمیم کا معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے، اور اس کیس کا فیصلہ کونسل کے دو اراکین کے مستقبل پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔

ججز نے ججز کی میڈیا سے گفتگو پر پابندی کو بھی غیر مناسب قرار دیا، مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ جدید جمہوری ممالک میں ججز اصلاحات اور عدالتی معاملات پر رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ایک جج غیر جانبداری کے دائرے میں رہ کر گفتگو کر سکتا ہے، اور ایسا مکالمہ عوامی فہم و شعور میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

بلوچستان پاکستان کا فخر، خوشحالی کے لیے سیاسی مفادات سے بالا تر ہو کر کام کرنا ہوگا، فیلڈ مارشل عاصم منیر

میرپور میں تاریخ رقم: ویسٹ انڈیز نے بنگلہ دیش کے خلاف ون ڈے میں صرف اسپنرز آزمائے

’پاکستان آئیڈل میں ایسے جج بیٹھے ہیں جن کا موسیقی سے تعلق نہیں‘، حمیر ارشد کی فواد خان پر تنقید

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی برقرار، انڈیکس 1,100 سے زائد پوائنٹس بڑھ گیا

سہیل آفریدی بزدار طرز کے وزیراعلیٰ، کے پی میں دہشتگردی کے خلاف آپریشن نہیں رکےگا، طلال چوہدری

ویڈیو

آنکھوں میں اندھیرا مگر خواب روشن: حسن ابدال کی اسرا نور کی کہانی

وطن واپسی کے 2 سال، کیا نواز شریف کی سیاسی زندگی اب جاتی عمرہ تک محدود ہوگئی ہے؟

شہباز حکومت اور جی ایچ کیو میں بہترین کوآرڈینیشن ہے، ون پیج چلتا رہے گا، انوار الحق کاکڑ

کالم / تجزیہ

افغانوں کو نہیں، بُرے کو بُرا کہیں

ہم ’یونیورس 25‘ میں رہ رہے ہیں؟

پاک افغان امن معاہدہ کتنا دیرپا ہے؟