ججز خط ازخود نوٹس: ایسے ججز کو جج نہیں ہونا چاہیے جو مداخلت پر کچھ نہیں کرتے، چیف جسٹس

منگل 7 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فاٸز عیسیٰ کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے ججز خط کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی بینچ کا حصہ ہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی جج کچھ نہیں کرسکتا تو گھر بیٹھ جائے، ایسے ججز کو جج نہیں ہونا چاہیے جو مداخلت دیکھ کر کچھ نہیں کرتے۔ کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ کیس کی آئندہ تاریخ بینچ کی دستیابی کی صورت میں دی جائے گی۔

سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ مداخلت ان کے لیے کی جائے، جسٹس جمال خان مندوخیل

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ مداخلت ان کے لیے کی جائے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 6 ججز نے مشترکہ خط لکھا، اور حتمی ذمے داری تو وفاقی حکومت کی ہے، کسی مہذب معاشرے میں اب تک سزائیں دی جا چکی ہوتیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وزیراعظم کو اسی لیے بلایا تھا کہ وہ پوچھتے کہ کس نے مداخلت کی، کیا انہوں نے کچھ کیا؟ عدلیہ میں مبینہ مداخلت کے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ عدالت نے کہا ہے کہ کیس کی آئندہ تاریخ بینچ کی دستیابی کی صورت میں دی جائے گی۔

ملک آئین کے تحت چل رہا ہے یا نہیں؟ جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہمارے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا یہ ملک آئین کے تحت چل رہا ہے یا نہیں؟ گزشتہ سماعت پر پوچھا گیا تھا کہ خفیہ ادارے کس قانون کے تحت چل رہے ہیں؟ مداخلت ہو ہی کیوں؟ سیاسی جماعتیں مداخلت ختم نہیں کرنا چاہتیں، 2018 مداخلت سے کسی ایک سیاسی جماعت کو فائدہ ملا آج کسی اور کو مل رہا ہے۔

میں اپنے اختیارات کسی کمیشن کو کیوں دوں؟ چیف جسٹس

چیف جسٹس نے سینئر وکیل حامد خان سے مکالمہ کیا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے کیس کی جلد شنوائی کے لیے آپ نے کتنی درخواستیں دیں۔ ہمیں لوگوں کا نام لے کر ان کو شرمندہ کرنا چاہیے، جزا سزا چھوڑیں کم از کم سچ بولنا شروع کر دیں۔ فرض کریں کہ مجھے دھمکی آتی ہے کہ اس کیس کا یہ فیصلہ کر دیں، میں شکایت دائر کروں وہ بہتر ہے یا وہ اختیار جو میں خود استعمال کرسکتا ہوں۔ میں اپنے اختیارات کسی کمیشن کو کیوں دوں؟

’نظام مے کدہ بگڑا ہوا ہے‘ عدالت میں قہقہے بلند

وکیل احمد حسن نے کہا کہ ویلز میں ججز نے سیکیورٹی اور حساس معلومات کے لیے ایک انٹرنیٹ بن بنایا ہوا ہے۔ میری پہلی رائے ہے کہ ججز اپنے انٹر کمیونیکیشن کو محفوظ کرنے کے لیے انتظام کریں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اس پوائنٹ پر کوئی بات نہیں کر رہا کہ مداخلت ہوتی کیوں ہے، پہلے تسلسل  سے مارشل لاء لگا کرتا تھا وہ رک گئے پھر 58 ٹو  بی آگئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہا ہوں اگر کسی سول جج کو کوئی جوتا مار دیتا تو کہا جاتا تھا کہ مک مکا کرلیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈسٹرکٹ جج قتل کے مقدمات سنتے ہیں، موت کی سزائیں سناتے ہیں ان پر بھی تو پریشر ہوتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے درست کہا ہے کہ زیادہ خرابی ہمارے اپنے اندر ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل نے دوران دلائل ایک مصرع پڑھا کہ ’نظام مے کدہ بگڑا ہوا ہے‘۔ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ معذرت کے ساتھ مے کدہ میں نظام کیسے بگڑ سکتا ہے؟ شعر میں سقم ہے۔احمد حسن نے جواب دیا کہ اسی کو جام ملتا ہے جسے پینا نہیں  آتا۔ جسٹس منصور علی شاہ کہا کہ اب سقم دور ہوگیا ہے۔ اس پر عدالت میں قہقہے بلند ہوئے۔

عدلیہ میں آزاد جج آتا ہے تو اس کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو چیف جسٹس کے ساتھ ہوا،  جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہماری عدلیہ میں جب کوئی آزاد جج آ جاتا ہے تو پھر اس کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو چیف جسٹس صاحب کے ساتھ ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں ایسا تاثر نہیں دینا چاہتا کہ عدلیہ بالکل بے دست و پا ہے، ہمارے پاس توہین عدالت کے اختیارات ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل احمد حسن نے کہا کہ جب تک غیر ذمے دارانہ رپورٹنگ کا نوٹس نہیں لیا جائے گا درست نہیں ہو گا، عدلیہ کی خرابی ہے کہ ہتک عزت کے مقدمات میں کتنا وقت لگ جاتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کوئی ایسا سسٹم بنانا چاہیے کہ اگر کچھ ہو جائے تو آپ وکلا سب اکٹھے ہو جاتے ہیں ایسی طرح ججز اکٹھے ہو جائیں، جب ججز اکٹھے کھڑے ہو جائیں تو کوئی کچھ کر ہی نہیں سکتا۔

اپنے آپ کو مضبوط کرنا چاہیے، ہم پر بھی کوششیں کی جاتی ہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل

اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدلیہ میں ایک مداخلت انتظامیہ، دوسری عدلیہ کے اندر سے اور تیسری سوشل میڈیا سے ہوتی ہے، سو موٹو اختیارات کا پچھلے ادوار میں غلط استعمال ہوتا رہا وہ بھی ایک مداخلت تھی۔ عدلیہ کی آزادی کی ذمے داری صرف سپریم کورٹ پر نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے کام کرنا ہم ججز کا فرض ہے آپ کا فرض نہیں، ہم نے حلف  لیا ہے۔ ہمیں اپنے ہیروز کو بھی سراہنا چاہیے، جنہوں نے مارشل لا ڈکٹیٹرز کو نہ بولی اور پی سی او کے تحت حلف نہیں لیا اور چلے گئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہمیں اپنے آپ کو مضبوط کرنا چاہیے، ہم پر بھی کوششیں کی جاتی ہیں۔

ایسے ججز کو جج نہیں ہونا چاہیے جو مداخلت پر کچھ نہیں کرتے، چیف جسٹس

جسٹس اطہر من اللہ نے صدر سپریم کورٹ بار سے مکالمہ کیا کہ ڈر کس بات کا ہے عوام کے سامنے سچ بولیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی جج کچھ نہیں کر سکتا تو گھر بیٹھ جائے، ایسے ججز کو جج نہیں ہونا چاہیے جو مداخلت دیکھ کر کچھ نہیں کرتے۔ صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ ہائیکورٹ بھی ماضی میں مداخلت پر خاموش رہی تو وہ بھی شریک جرم ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صرف میں نہیں اٹارنی جنرل سمیت حکومت بھی مداخلت تسلیم کر رہی ہے۔

3 نومبر 2007 کا اقدام سب سے بڑی توہین عدالت تھی اس پر کسی کو سزا نہیں ملی، عدالت

شہزاد شوکت نے کہا کہ ہم نے اپنی تمام پریس کانفرنسز میں سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کی مذمت ہے اور اب ایک اتھارٹی بھی بن گئی ہے لیکن صحافی میرے پاس آ کر کہتے ہیں اظہارِ رائے پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2019 میں چیف جسٹس اور مجھ پر تنقید کی جاتی تھی لیکن ایک جج کو تنقید سے بے پرواہ ہو کر کام کرنا چاہیے۔ 3 نومبر 2007 کا اقدام سب سے بڑی توہین عدالت تھی لیکن اس پر کسی کو سزا نہیں ملی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ ایک ڈسٹرکٹ جج مداخلت کے خلاف آواز اٹھائے گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سوشل میڈیا پر فیئر تنقید ہونی چاہیے لیکن لوگوں کو گمراہ نہیں کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تنقید اور جھوٹ میں بہت بڑا فرق ہے، یہاں ایک کمشنر تھے انہوں نے جھوٹ بولا تو تمام میڈیا نے چلایا۔ باہر ممالک میں ہتک عزت پر جیبیں خالی ہوجاتی ہیں۔ صرف سچ بولنا شروع کریں، سزا جزا کو چھوڑیں۔

مداخلت نہ فیض آباد دھرنا کیس سے رکی نہ کسی اور چیز سے، جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ تمام ہائیکورٹس نے 6 ججز سے بھی زیادہ سنگین جوابات جمع کرائے ہیں، ایک ہائیکورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ مداخلت آئین کیساتھ کھلواڑ ہے، لگتا ہے پاکستان بار نے اپنی تجاویز ہائیکورٹس کے جوابات کو مدنظر رکھ کر نہیں تیار کیں۔ ایک ہائیکورٹ نے تو یہ کہا ہے آئین کو سبوتاژ کیا گیا، یہ مداخلت نہ فیض آباد دھرنا کیس سے رکی نہ کسی اور چیز سے۔ ججز نے ہائی لائٹ کیا کہ مداخلت ایک جاری سلسلہ اور رجحان ہے، آپ بتائیں ایسا کیا ڈر پیدا کیا جائے کہ یہ سلسلہ رکے؟ اٹارنی جنرل خود مان چکے ہیں 2018 میں کیا کچھ ہو رہا تھا۔

ایک ڈسٹرکٹ جج وہ کام کرے جو سپریم کورٹ نہیں کرسکتی، عدالت

جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان بار کونسل کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ایک ڈسٹرکٹ جج وہ کام کرے جو سپریم کورٹ نہیں کر سکتی۔ حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین شہزاد شوکت نے کہا کہ جب آپ براہ راست نشریات میں کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ مداخلت پر خاموش رہی تو اس سے عوام میں اچھا پیغام نہیں جاتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن مداخلت پر سزاؤں کا قانون لانے کی سفارش کرتی ہے۔ اس معاملے سے عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو دھچکا پہنچا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے سنگین الزامات لگائے ہیں جو جرم کے زمرے میں آتے ہیں۔ جرم فوجداری نوعیت کا ہے ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

پہلے وکلا تنظیموں کا مؤقف سنیں گے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے ہم وکلا تنظیموں کا مؤقف سنیں گے اس کے بعد کسی نے انفرادی طور پر کچھ کہنا ہے تو سنیں گے۔ اٹارنی جنرل نے جواب جمع کرانے کے لیے وقت مانگتے ہوئے کہا کہ مجھے گزشتہ آرڈر کی کاپی ابھی نہیں ملی تھی، مجھے اس کیس میں وزیر اعظم سے بھی بات کرنا تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی حکم پر 3 دستخط ابھی بھی نہیں ہوئے، پھر کمرہ عدالت میں ججز کو آرڈر کاپی دستخط کرنے کے لیے دے دی گئی۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ کو وقت چاہیے ہوگا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی مجھے کل تک وقت دے دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج کون دلائل دینا چاہے گا؟ اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ہم 45 منٹ لیں گے اور دلائل مکمل کرلیں گے۔

سپریم کورٹ بار کے صدر اور ایڈیشنل سیکریٹری کے درمیان روسٹرم پر اختلاف

لاہور ہائیکورٹ بار، بلوچستان ہائیکورٹ بار اور بلوچستان بار کونسل کے وکیل حامد خان عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل کے لیے ایک گھنٹے کا وقت مانگ لیا۔ سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے دلائل کے لیے آدھے گھنٹہ مانگ لیا۔ اس موقع پر سپریم کورٹ بار کے صدر اور ایڈیشنل سیکریٹری شہباز کھوسہ کے درمیان روسٹرم پر اختلاف ہوا، شہباز کھوسہ نے کہا کہ ذاتی حیثیت میں الگ درخواست دائر کی ہے، ایگزیکٹو کمیٹی کی کل رات میٹنگ ہوئی تھی۔ اس پر شہزاد شوکت نے کہا کہ پتا نہیں کیوں اپنی تشہیر چاہتے ہیں؟ شہباز کھوسہ نے جواب دیا کہ میں کوئی تشہیر نہیں چاہتا۔

اتنے وکیل ہیں لیکن عدلیہ کی آزادی کے لیے بھی ایک پیج پر نہیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ تعجب اس بات پر ہے کہ اتنے سارے وکیل ہیں لیکن عدلیہ کی آزادی کے لیے بھی ایک پیج پر نہیں، ہر کوئی اپنی بات کرنا چاہتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ پاکستان بار کونسل کے ممبر 6 وکلاء الگ سے درخواست دینے کے بجائے پاکستان بار کونسل کے پلیٹ فارم سے ہی بات کرتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے جمہوریت کو فروغ دیا ہے، آپ اپنے منتخب نمائندوں سے اختلاف کر سکتے ہیں۔

وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے وہ مطمئن کرے مداخلت نہیں ہے، جسٹس اطہر من اللہ

 چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو گزشتہ سماعت کا حکمنامہ اور جسٹس اطہر من اللہ کا اضافی نوٹ بھی پڑھنے کی ہدایت کی۔ اٹارنی جنرل کو پڑھنے میں دشواری پر جسٹس اطہر من اللہ نے خود اپنا نوٹ پڑھ دیا اور کہا کہ نوٹ میں لکھا ہے وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے وہ مطمئن کرے مداخلت نہیں ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ یہ بات اصل آرڈر کے پیراگراف 5 میں بھی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس پیراگراف میں صرف تجاویز مانگنے کی بات تھی۔

ہائیکورٹس نے لکھا ہے مداخلت تو آج بھی ہو رہی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ

پاکستان بار کونسل کے وکیل ریاضت علی نے کہا کہ پاکستان بار کونسل اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے معاملے پر جوڈیشل تحقیقات کرانا چاہتی ہے۔ ایک یا ایک سے زیادہ ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنا کر قصور واروں کو سزا دی جائے۔

چیف جسٹس نے سابق صدر عابد زبیری سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہم کسی پرائیویٹ شخص کو فریق نہیں بنائیں گے، وکلا بتائیں دلائل کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے، ہائیکورٹ کے ججز نے نشاندہی کی ہے کہ مداخلت کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2018/19 میں ہائیکورٹس کا سب سے بڑا چیلنج سپریم کورٹ کا مسائل پر خاموشی اختیار کرنا تھا۔ لگتا ہے کہ پاکستان بار کونسل نے جو سفارشات مرتب کی ہیں وہ ہائیکورٹس کے جواب کی روشنی میں نہیں کیں۔ ہائیکورٹس نے تو لکھا ہے کہ مداخلت تو آج بھی ہو رہی ہے۔

ہائیکورٹ کی جانب سے توہین عدالت کی کارروائی نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، سپریم کورٹ بار

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط پر از خود نوٹس کے مقدمے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی سپریم کورٹ میں اپنی تجاویز جمع کرا دی ہیں۔ کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کی جانب سے توہین عدالت کی کارروائی نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ سپریم کورٹ بار عدلیہ کی آزادی پر کبھی سمجھوتا نہیں کرے گی۔ عدلیہ میں مداخلت کرنے والوں کیخلاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔

سپریم کورٹ بار نے کہا ہے کہ ججز کی ذمہ داریوں اور تحفظ سے متعلق مکمل کوڈ آف کنڈکٹ موجود ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے پاس توہین عدالت کا اختیار موجود ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کو کسی قسم کی مداخلت پر توہین عدالت کی کاروائی کرنی چاہیے تھی، ہائیکورٹ کی جانب سے توہین عدالت کی کارروائی نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے،

سپریم کورٹ بار نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے خط میں گزشتہ سال کے واقعات کا ذکر کیا ہے، ججز کا خط میڈیا کو لیک کرنا بھی سوالات کو جنم دیتا ہے، کسی بھی جج کو کوئی شکایت ہو تو اپنے چیف جسٹس کا آگاہ کرے، اگر متعلقہ عدالت کا چیف جسٹس کارروائی نہ کرے تو سپریم جوڈیشل کونسل کو آگاہ کیا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp