پولیس افسران کی خودکشی: اسباب، محرکات، سدباب

جمعہ 24 اکتوبر 2025
author image

عامر خاکوانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سڈنی شیلڈن انگریزی زبان کا مشہور پاپولر ناول نگار ہے، اس کے تھرلنگ ناول دنیا کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہوئے، وہ بیسٹ سیلر رائٹر رہا۔ چند سال پہلے اپنی موت سے قبل سڈنی نے اپنی بائیوگرافی بھی ایک ناول کے انداز میں لکھی۔ اس کتاب میں انکشاف کیا کہ 18 سال کی عمر میں سڈنی شیلڈن نے خودکشی کی کوشش کی، مگراتفاق سے عین وقت پر والد گھر آگیا اور اس نے پھر اپنی باتوں سے نوجوان سڈنی کو قائل کرلیا کہ اپنی زندگی کی کتاب بند کرنے کے بجائے اگلے برسوں میں آنے والے نئے چیپٹرز (ابواب) دیکھ لے۔ خوش قسمتی سے نوجوان سڈنی نے ایسا کیا اور پھر زندگی کی 65۔ 70 مزید بہاریں دیکھ کر ہی رخصت ہوا۔

زندگی ایک لفٹ ہے، اس سے باہر نہ نکلیں

سڈنی شیلڈن کی زندگی ڈرامائی واقعات سے معمور ہے۔ اپنی پوری زندگی کا نچوڑ سڈنی نے دو سطروں میں یوں نکالا: ’زندگی ایک لفٹ کی طرح ہے، کبھی یہ نیچے آتی ہے تو کبھی اوپر جاتی ہے۔ جب یہ ٹاپ فلور پر ہو تو نیچے بھی آئے گی اور اگر نیچے ہو تو یقین رکھیں کہ زندگی کی لفٹ ٹاپ پر بھی لے جائے گی۔ کامیابی کی کنجی یہ ہے کہ لفٹ سے باہر نہیں نکلنا۔ لفٹ میں رہیں گے تو آج کی ناکامی کل کی کامیابی میں بدل جائے گی‘۔

سڈنی شیلڈن کی زندگی کے ان پہلوئوں پر برسوں پہلے میں نے کالم لکھا تھا، لفٹ سے باہر مت آئیں۔ یہ کالم میری پہلی کتاب زنگار میں بھی شامل ہے۔ جب یہ کالم اخبار میں چھپا تو مجھے کئی لوگوں کے میسجز اور ای میلز آئے (تب لوگ ای میل بھی بھیجا کرتے تھے) کہ ہم مایوس ہوچکے تھے، اس کالم نے حوصلہ دیا۔ پشاور سے ایک نوجوان نے میسج کیا کہ میں خودکشی کا فیصلہ کرچکا تھا، اس کالم نے حوصلہ دیا اور اب زندگی سے لڑنے کا ارادہ کرلیا۔

آج جب وہ کالم لکھے مجھے 10، 15 برس گزر چکے ہیں، میں سوچتا ہوں کہ اس طرح کی چیزوں کی جتنی ضرورت اب ہے، پہلے نہیں تھی۔ پچھلے چند برسوں میں مینٹل ہیلتھ، ڈپریشن اور خودکشی کے رجحانات وغیرہ پر بہت کچھ پڑھنے کا موقعہ ملا۔ اب مجھے لگتا ہے کہ زندگی اتنی پیچیدہ ہوچکی ہے کہ جدید دور کے انسان کے تضادات، تنہائی اور داخلی دنیا ایسی پروحشت اور تکلیف دہ ہے کہ اسے مستقل بنیادوں پر پروفیشنل مدد کی ضرورت ہے۔ اس تحریر کا فوری محرک ایس پی اسلام آباد عدیل اکبر کی خودکشی کا افسوسناک سانحہ بنا ہے۔

پولیس افسران کی خودکشی کے واقعات، مختصر ڈیٹا

پاکستان میں پچھلے چند برسوں کے دوران کئی پولیس اور انتظامی افسران خودکشی کے افسوسناک انجام سے دوچار ہوئے۔ 2011 میں ننکانہ صاحب میں ڈی پی او شہزاد اکبر نے سرکاری پسٹل سے خودکشی کی۔

2016 میں جعفر آباد بلوچستان میں ایس ایس پی / ڈی پی اوجہانزیب کاکڑ کی دفتر میں گولی لگنے سے موت ہوئی، ابتدا میں قتل کا خدشہ ظاہر کیا گیا، مگر تفصیلی پولیس تفتیش میں یہ خودکشی ہی قرار پائی۔

2018 میں ڈپٹی کمشنر سہیل احمد ٹیپو کی سرکاری رہائش گاہ سے لاش برآمد ہوئی، تفتیش سے پتہ چلا کہ خودکشی کی گئی۔

اسی سال لاڑکانہ کے ڈی ایس پی راجہ اظہر محمود نے پولیس لائنز میں خودکشی کرلی۔

2020 میں پنڈی کے ایس پی ابرار نیکوکارہ کی خودکشی کی خبر آئی، ان کے ہاتھ سے لکھا گیا ایک تحریری نوٹ بھی ملا تھا۔

رواں سال رحیم یار خان میں ایک ڈی ایس پی سیف اللہ کورائی کی مبینہ خودکشی کی خبر آئی۔ اب اکتوبر کے ایک افسوسناک دن میں ایس پی اسلام آباد عدیل اکبر کی موت کی خبر ہم سب پڑھ اور سن چکے ہیں۔

ہر بدقسمتی منفرد اور تنہا ہوتی ہے

روسی ناول نگار لیو ٹالسٹائی کے شہرہ آفاق ناول اینا کرینینا کی پہلی سطر بڑی مشہور ہے اور اسے بہت جگہ پر کوٹ کیا جاتا ہے، ’تمام خوش خاندان ایک جیسے ہوتے ہیں، مگر ہر بدقسمت یا ناخوش خاندان اپنی بدقسمتی میں منفرد ہوتا ہے‘۔

اس جملے کے دو تین قسم کے ترجمے کیے جاتے ہیں، جیسے ادبی اور کلاسیکی رنگ میں ترجمہ کیا جائے تو کچھ یوں بنتا ہے: ’ہر خوشحال گھرانہ ایک ہی رنگ میں رنگا ہوتا ہے، لیکن ہر غمزدہ گھر اپنی اذیت میں نرالا ہوتا ہے‘۔

جدید صحافتی انداز میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں: ‘سارے خوش گھرانے ایک جیسے نظر آتے ہیں، لیکن ہر ٹوٹا گھرانہ اپنی الگ کہانی رکھتا ہے‘۔

درحقیقت یہ صرف ایک بڑے ناول کا چونکا دینے والا آغاز نہیں بلکہ یہ جملہ ادبی ناقدین کے مطابق ٹالسٹائی کے فلسفہ زندگی، اخلاقیات اور انسانی رشتوں کے نقطہ نظر کا خلاصہ ہے اور اس ضخیم ناول کا نچوڑ بھی۔

ٹالسٹائی کے اس جملے اور ناول پر بہت سی طویل فلسفیانہ بحثیں کی گئی اور کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ میں اپنے پڑھنے والوں کو دقیق فلسفیانہ بحثوں سے بچاتے ہوئے صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ٹالسٹائی کے مطابق خوشی اور سکون ایک خاص قسم کی ہم آہنگ توازن سے حاصل ہوتی ہے۔ تمام خوش گھرانے اس توازن کو قائم رکھتے ہیں، اس لیے وہ سب ایک سے نظر آتے ہیں۔ تاہم جب یہ توازن ٹوٹتا ہے، خواہ وہ محبت ہو، وفاداری، سماجی تعلق یا کسی اور سمت میں تو پھر وہ بدقسمت خاندان اپنی انفرادیت کے ساتھ ہی ٹوٹتا ہے۔ اس لیے بدقسمت گھرانے کی کہانی ایک سی نہیں ہوتی ہے۔

یہ وہ نکتہ ہے جس پر ٹالسٹائی کے بعد بھی کئی بڑے ادیبوں نے قلم اٹھایا۔ بات وہی ایک ہی ہے کہ انسانی زندگی کا المیہ ہمیشہ ذاتی، منفرد اور غیر متوقع ہوتا ہے۔ اس لیے اس پر کوئی لگا بندھا فارمولا اپلائی نہیں کرنا چاہیے۔ یہ وہ بات ہے جو ہم میڈیا والوں کو، سوشل میڈیا پر لکھنے یا بات کرنے والوں کو خودکشی کے حوالے سے لازمی یاد رکھنی چاہیے۔

نتیجہ اخذ کرنے میں عجلت نہیں کرنی چاہیے

اخباری اطلاعات کے مطابق عدیل اکبر کو ایک فون کال آئی، (ممکنہ طور پر کسی بڑے افسر کی) اور اس کے بعد انہوں نے اپنے گارڈ سے پسٹل لے کر اپنے آپ پر گولی چلا دی۔ ممکن ہے بعض سوشل میڈیا حلقے اس میں کوئی سیاسی مداخلت ڈھونڈ لیں یا کسی ’بڑے’ کو مورد الزام ٹھہرانے کے لیے کوئی سازشی تھیوری گھڑ لی جائے۔

یہ بھی خبر دیکھی کہ عدیل اکبر کی پروموشن نہیں ہوئی تھی جبکہ اس کے بیچ کے لوگ پروموٹ ہوگئے، جس پر وہ ڈپریشن میں تھا۔ ممکن ہے کہ ایک آدھ دن میں کوئی رپورٹر اس کے گھریلو حالات اور نجی زندگی کے حوالے سے بھی کچھ سچ جھوٹ پر مبنی رپورٹ داغ دے۔ بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز وغیرہ نے غلط، جعلی اور سنسنی خیز تھمب نیل لگا کر ویوز کمانے کا گھٹیا طریقہ ڈھونڈ رکھا ہے۔ یہ درست نہیں، اس لیے کہ خودکشی کسی ایک فعل کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ ایسا نہیں کہ بیوی سے لڑائی ہوئی تو خودکشی کرلی گئی یا افسر کی ڈانٹ نے اتنا دلبرداشتہ کردیا۔ یہ انتہائی ردعمل ہے اوراس کے پیچھے بہت سے پیچیدہ عوامل شامل ہیں۔ ایس پی عدیل اکبر کی خودکشی کے حوالے سے بھی براہ کرم کوئی سطحی، عجلت آمیز رائے نہیں دینی چاہیے۔

بعض المیے صرف واقعہ نہیں بلکہ علامت بھی ہیں

اس طرح کی خودکشی کے بعض واقعات اپنی نوعیت میں ایک المناک سانحہ تو ہوتے ہی ہیں، مگر دراصل وہ سسٹم میں موجود ایک بڑے خلا یا ناکامی کی علامت بھی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملازمین بہت بار مختلف عوامل سے تنگ ہوتے ہیں۔ کسی کو اپنے ’سنگدل’ باس سے شکوے ہیں تو کوئی اپنی نامہربان بیوی سے تنگ، کسی کو اپنے نالائق ماتحتوں سے مسائل ہیں تو فیملی پالیٹکس بھی بہت سوں کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ سب سے بڑھ کر کئی لوگ اپنے آپ سے ناخوش رہتے ہیں۔ انہیں اپنے اندر ایک خلا، ایک مہیب تنہائی اور بے مقصدیت نظر آتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ اس دباؤ کو مینیج کرنے کا اگر ادارہ جاتی طریقہ ہو، ان مسائل میں گھرے لوگ کہیں سے پروفیشنل مدد لے سکیں تو شاید ان سانحات سے بچا جا سکے۔

باس، انچارج، سپروائزرز کا کردار بہت اہم اور کلیدی ہے۔ اگروہ ہمدردانہ انداز میں چیزوں کو دیکھنا سیکھیں، ماتحتوں اور ساتھیوں کو روبوٹ کے بجائے انسان سمجھیں، ان کے مسائل اور پریشانیوں کو اہمیت دیں تو بہت سی چیزیں بہتر ہوسکتی ہیں۔ باس کو چاہیے کہ وہ اوپر سے آیا دباؤ اور غصہ نیچے اپنے ماتحت تک منتقل نہ کرے۔ غصے کی زنجیر بنانے کے بجائے کچھ چیزیں خود تک محدود کرنی چاہییں۔ اس میں یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے ناہمدرد، بے رحم اور اذیت پسند باس یا سینیئرز کا بھی کہیں کوئی محاسبہ ہونا چاہیے۔ اگر سینیئرز اپنے جونیئرز کے لیے سالانہ رپورٹ بناتے ہیں جس پر ان کے کیریئر کا انحصار ہوتا ہے تو کسی طریقے سے جونیئرز سے بھی فیڈبیک لینا چاہیے اور غیر حساس، بے رحم اور گھٹیا قسم کے سینیئر افسران کے خلاف بھی ان کی فائل میں ریٹنگ لکھی جائے۔

پیشہ ورانہ دباؤ بہت بڑی حقیقت ہے۔ کئی پیشے ایسے ہیں جن میں وقت کی کوئی قید نہیں۔ دن رات ہی مصروف رہنا پڑتا ہے۔ ان میں پولیس اور فورسز کے لوگ سرفہرست ہیں۔ ویسے تو صحافی، ڈاکٹر حضرات کی شام اور رات ڈیوٹی پر گزرتی ہے۔ بینکرز حضرات کو بھی 10 گھنٹے سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے تاہم ان سب سے زیادہ پولیس اور انتظامیہ (اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر وغیرہ) پر ہر وقت بے پناہ دباؤ رہتا ہے۔ انہیں اچھی تنخواہ، بڑی رہائش گاہ، سرکاری گاڑی اور رعب دبدبے والی ملازمت تو ملتی ہے، مگر اس کے عوض بہت کچھ قربان بھی کرنا پڑتا ہے۔ دباؤ والے پروفیشن میں نیند نہ آنا، ڈپریشن وغیرہ عام ہیں، اسی وجہ سے یہ لوگ بلڈ پریشر، شوگر اور ہارٹ اٹیک کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ اسی دباؤ کی وجہ سے ان میں سے بہت سے اسموکنگ اورممنوعہ مشروبات وغیرہ کی طرف بھی متوجہ ہوجاتے ہیں۔

سول سروس جوائن کرنے والے نوجوانوں کو یہ بات پہلے سے سمجھ لینی چاہیے۔ اگر وہ زبردست قسم کے پروفیشنل دباؤ کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے تو نسبتاً آسان شعبوں جیسے کسٹم، انکم ٹیکس، آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس، ریلوے وغیرہ کو ترجیح دیں۔

پاکستان میں پولیس کے شعبے کو سیاسی دباؤ کے علاوہ عوامی ردعمل، میڈیا کی تنقید وغیرہ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ یوں ان کی زندگیاں مزید کٹھن ہوجاتی ہیں۔ اسی وجہ سے بعض پولیس افسران کہتے ہیں کہ یہ شعبہ حساس اور نرم دل لوگوں کے لیے نہیں بنا اور ایک اچھے پولیس افسر کو عوام دوست ہونے کے بجائے خود کو ٹف بنانا چاہیے۔

ہمارے خیال میں یہ بات درست نہیں۔ عوام سے انٹرایکشن رکھنے والے پروفیشن میں ہمدرد اور انسان دوست لوگ بھی ہونے چاہییں اور حساس ہونا بھی کوئی خامی نہیں۔ اسی طرح پولیس افسران کو ٹف یعنی سخت کے بجائے اسٹرانگ یعنی مضبوط بننا چاہیے۔ جسمانی مضبوطی کے ساتھ ان کی ذہنی مضبوطی پر بھی کام کیا جائے اور اس مقصد کے لیے ان اداروں میں اصلاحات اورایسا بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے جو ماڈرن دنیا میں کیا جارہا ہے۔ اس کالم کے اگلے حصے میں انشااللہ ہم ان اصلاحات اور تجاویز کی بات کریں گے جن سے اس قسم کے واقعات کا سدباب ہوسکے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

ترکیہ کے مغربی ساحل کے قریب تارکینِ وطن کی کشتی ڈوبنے سے 17 افراد ہلاک

پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں نئی پیش رفت، دوطرفہ تعاون کے فروغ پر اتفاق

حماس سمیت فلسطینی گروپس کا غزہ کا انتظام ٹیکنوکریٹ کمیٹی کے سپرد کرنے پر اتفاق

بھارت کبھی کشمیریوں کے جذبۂ آزادی کو کمزور نہیں کر سکتا، کشمیری رہنما ملک عامر

کئی ممالک غزہ فورس میں شامل ہونے کو تیار، مگر اسرائیل کی منظوری لازمی، مارکو روبیو

ویڈیو

ٹی ایل پی پر پابندی، رضوی برادران مشکل میں، حیران کن شواہد سامنے آگئے

خیبر پختونخوا کی روایتی محفل کراچی تک کیسے پہنچی؟

ٹی ٹی پی صرف پاکستان نہیں پورے خطے کے لیے خطرہ ہے، میجر جنرل زاہد محمود

کالم / تجزیہ

آو کہ کوئی خواب بُنیں کل کے واسطے

گھر میں ایک اور شکست، پاکستانی ٹیم ہمیں کب حیران کرے گی؟

خالصتان تحریک اور مودی کا خوف