سنی کمار نامی شہری کی غیر قانونی طور پر ڈوپلیکیٹ سم نکال کر اس کے بینک اکاؤنٹ سے 85 لاکھ روپے نکالنے کا فنانشل فراڈ سامنے آ گیا، نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کی جانب سے موبائل سیلولر کمپنی اور نجی بینک کو زمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی کو شہری سنی کمار نے شکایت درج کروائی تھی سنی کمار کے مطابق 29 ستمبر 2025 کو 7 سے 8 بجے کے درمیان وہ کراچی میں موجود تھا کہ اچانک اس کے سم کارڈ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔
اگلے روز 30 ستمبر کو وہ کراچی میں واقع موبائل کمپنی کے بزنس سینٹر گیا جہاں اسے بتایا گیا کہ اس کے نام پر موجود سم کی ڈوپلیکیٹ سم حیدر آباد میں بغیر اس کی بائیو میٹرک شناخت کے نکلوائی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: بائیو میٹرک تصدیق لازمی مگر! ایزی پیسا نے اکاؤنٹ بند ہونے کی افواہوں پر وضاحت کردی
درخواست گزار کے مطابق یہی سم نمبر اس کے بینک اکاؤنٹ سے بھی لنک تھا۔ شہری نے بتایا کہ جب اس نے اپنا بینک اکاؤنٹ چیک کیا تو معلوم ہوا ہے کہ غیر قانونی طور پر فراڈ کے ذریعے اس کے بینک اکاؤنٹ سے ایک رات میں 100 سے زائد ٹرانزیکشن کے ذریعے 85 لاکھ روپے کی رقم نکال کر مختلف اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کی گئی ہے۔
سنی کمار نامی شہری نے اپنے ساتھ ہونے والے فراڈ کے خلاف عدالت سے رجوع کر رکھا ہے، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جنوبی کی عدالت نے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کو انکوائری کا حکم دے رکھا تھا۔
این سی سی آئی اے نے رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی جس میں کہا گیا ہے کہ شہری کی سم کا بغیر بائیو میٹرک تصدیق کے حیدر آباد میں دوبارہ اجرا کیا گیا، شہری کی سم کو استعمال کرکے اکاؤنٹ سے 85 لاکھ روپے منتقل کیے گئے۔
مزید پڑھیں: وزیر داخلہ کا نادرا ہیڈکوارٹرز کا دورہ، شناختی کارڈز اور بائیو میٹرک پالیسی پر اہم فیصلے
سیلولر کمپنی اور بینک نے طلبی کے باوجود مکمل ریکارډ فراہم نہیں کیا، سیلولر کمپنی اور بینک کی غفلت سے شہری کے ساتھ مالی فراڈ ممکن ہوا۔
ابتدائی شواہد سے شہری کے ساتھ مکمل منصوبہ بندی کے ذریعے فراڈ کے تصدیق ہوتی ہے، بغیر بائیو میٹرک تصدیق سم کا اجرا سیلولر کمپنی کی غفلت ہے، جبکہ 100 ٹرانسیکیشن کے باوجود بینک کے نگرانی کے مکینزم نے الرٹ جاری نہیں کیا۔
این سی سی آئی اے حکام کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق شہری کی جانب سے ثبوت بھی فراہم کیے گئے جس کے بعد نجی بینک اور سیلولر کمپنی سے متعلقہ ریکارڈ فراہم کرنے کی درخواست کی گئی تاہم دونوں کی جانب سے مطلوبہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
بینک کے متعلقہ برانچ منیجر کو تمام متعلقہ ریکارڈ سمیت طلب کیا گیا، بینک کی جانب سے برانچ منیجر کی جگہ ریلیشن شپ مینجر پیش ہوئی جنہوں نے صرف متاثرہ شہری کی بینک اسٹیٹمنٹ اور جزوی ٹرانزیکشن ریکارڈ پیش کیا۔
مزید پڑھیں: اب ایک شناختی کارڈ پر دوسری موبائل سم کی بائیو میٹرک تصدیق کے لیے کتنا وقت درکار ہو گا؟
موبائل سیلولر کمپنی کے ہیڈ آف کمپلائنس سے بھی ریکارڈ طلب کیا گیا تاہم متعدد بار یاد دہانی کروانے کے باوجود کمپنی کی جانب سے مبہم اور غیر اطمینان بخش جواب دیا گیا۔
حکام کے مطابق ان سے سم کے جاری کرنے، حفاظتی اقدامات، احتساب، ڈیوائس لوکیشن ٹیگنگ اور بی وی ایس ایس او پیز سے متعلق 48 سوالات کیے گئے تاہم انہوں نے جواب دینے سے انکار کردیا اور باقی دستاویزات کے ساتھ تحریری جواب جمع کرانے کے لیے مزید وقت مانگا۔
ٹرانزیکشن پیٹرن منصوبہ بند سائبر فنانشل فراڈ کا اشارہ کرتا ہے جس میں دھوکا دہی پر مبنی سم سویپ سرگرمی کے بعد درخواست گزار کے ڈیجیٹل بینکنگ سسٹم تک غیر مجاز رسائی شامل ہے۔
مزید پڑھیں: ’نادرا‘ جدت کی جانب گامزن، آنکھوں کے ذریعے بائیو میٹرک تصدیق کا نظام ’آئرس‘ متعارف
بینک نے ریڈ فلیگ الرٹس پر مناسب تصدیق کے بغیر چند گھنٹوں کے اندر متعدد ہائی ویلیو ٹرانزیکشنز کی اجازت دی۔
حکام کے مطابق درخواست گزار کی فراڈ کے ذریعے نکالی گئی سم کے ذریعے غیر مجاز طور پر درخواست گزار کے ڈیجیٹل بینکنگ سسٹم تک رسائی دی گئی۔
عدالت نے این سی سی آئی اے کی رپورٹ کیس کا حصہ بنالیا ہے۔ عدالت نے این سی سی اے کی رپورٹ پر سماعت 28 اکتوبر کو مقرر کردی۔
ا














