بارش کبھی کبھی صرف موسم نہیں ہوتی، تاریخ بن جاتی ہے۔ نومبر 2009 میں جدہ پر اترنے والی بارش نے اچانک شہر کو آزمائش میں ڈال دیا۔ گاڑیاں بہہ رہی تھیں، لوگ چیخ رہے تھے، پانی منہ زور تھا۔
اسی لمحے سوات کے ایک خاموش دلیر نوجوان نے ایک رسی اپنی کمر سے باندھی، لہروں میں چھلانگ لگائی اور انسانوں کو ایک ایک کر کے موت کے جبڑوں سے کھینچنا شروع کیا۔
وہ فرمان علی خان تھا جس نے 14 جانیں بچائیں اور 15ویں کو نکالنے کی کوشش میں خود پانی کی نذر ہو گیا۔ یہ کہانی جذبات سے زیادہ ایک اخلاقی مقدمہ ہے۔
ریاستیں جب اخلاقی اعتبار قائم کرتی ہیں تو وہ ایسے کرداروں کو فراموش نہیں کرتیں۔ اکتوبر 2011 میں خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے فرمان علی خان کو بعد از وفات سعودی عرب کا شاہ عبد العزیز کا اعلیٰ اعزاز (فرسٹ کلاس) عطا کرنے کی منظوری دی، یہ اعلان پیغام تھا کہ بہادری اور ایثار کی قدر سرحدوں سے ماورا ہے۔ اسی فیصلے کے ساتھ فرمان کے اہلِ خانہ کو شاہ کے مہمان کے طور پر حج کی میزبانی کا حکم دیا گیا۔
یہیں بات ختم نہیں ہوئی۔ مئی 2012 میں جدہ میونسپلٹی نے قوَیْزہ کے علاقے کی ایک مرکزی سڑک کو فرمان علی خان کے نام سے موسوم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ شہر روزانہ اس قربانی کو یاد رکھے۔ یہ نام صرف ایک تختی نہیں، شہری حافظے کی تعمیر ہے۔
ریاستی سطح پر اعتراف کے ساتھ سفارتی سطح پر رشتہ بھی قائم رہا۔ سعودی سفیر نے اہلِ خانہ سے ملاقات کی، تعزیت اور قدر دانی کی زبان میں اس داستان کو زندہ رکھا اور میڈیا نے اسے اسلامی اخوت کی علامت کے طور پر پیش کیا۔
وقت گزرا تو اعتراف نے ترقیاتی صورت بھی اختیار کی۔ فروری 2019 میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خیبر پختونخوا میں فرمان علی خان کے نام سے ایک ہیلتھ کیئر سینٹر قائم کرنے کی ہدایت دی، ایثار کی قدر کو پائیدار خدمت میں بدلنے کی عملی مثال۔
اسی دوران عرب نیوز کی رپورٹس نے ایک بار پھر فرمان کی کہانی، اس کے عمل کی جزئیات اور اس کی بیٹیوں کی آوازوں کے ساتھ دنیا کو یاد دلایا کہ بہادری محض لمحہ نہیں، نسلوں کا نصاب ہے۔
پاکستان نے بھی اپنے بیٹے کو بھلایا نہیں، صدرِ پاکستان نے تمغۂ شجاعت عطا کیا اور اہلِ خانہ کی اعانت کے اعلانات ہوئے۔ لیکن اس سارے اعتراف میں جو چیز سب سے اہم ہے وہ عوامی حافظہ ہے، وہ حافظہ جو پاکستانی برادری کے فخر اور سعودی معاشرے کی قدردانی سے بنا ہے، وہ حافظہ جو ہر بحران میں ہمیں بتاتا ہے کہ ایک فرد کی جرات پورے معاشرے کا معیار بدل دیتی ہے۔
فرمان علی خان کی کہانی کو محض رقت انگیز واقعہ سمجھ کر پڑھ لینا آسان ہے مگر اس میں ہمارے آج اور کل کے لیے واضح رہنمائی چھپی ہے۔
پہلی بات: پاکستانی محنت کش صرف افرادی قوت نہیں، وہ اقدار کے سفیر ہیں۔ ان کے ہاتھوں کی محنت اور دلوں کی وفاداری نے 4 دہائیوں میں سعودی عرب کی معیشت اور سماج کی تعمیر میں حصہ ڈالا ہے؛ فرمان نے اسی اجتماعی کردار کو ایک فیصلہ کن لمحے میں مجسم کر دیا۔
دوسری بات: سعودی ریاست اور معاشرہ اس کردار کو پہچانتا اور اس کا وقار قائم کرتا ہے، اعزازات، شہری یادگاریں اور اہلِ خانہ کی خبرگیری اسی تسلسل کی کڑیاں ہیں۔
تیسری بات: ایسے واقعات کو ادارہ جاتی یاد میں محفوظ کرنا ضروری ہے تاکہ جذبۂ خدمت حادثات کا محتاج نہ رہے بلکہ سماجی تربیت کا حصہ بنے۔ میڈیا کو چاہیے کہ فرمان جیسے کرداروں کی فہرست مرتب کرے، کیونکہ اجتماعی حافظہ منصوبہ بندی سے بنتا ہے، حادثاتی طور پر نہیں۔
فرمان علی خان کی 3 بیٹیاں آج ایک ایسے نام کی وارث ہیں جو 2 ملکوں کے مابین ایک لطیف مگر مضبوط پل ہے۔ جب بھی جدہ میں اس کے نام کی سڑک سے لوگ گزریں گے تو انہیں یاد رہے گا کہ ایک پاکستانی نے زندگی دے کر ان کی زندگیاں بچائیں؛ جب بھی سوات میں اس کے نام کا مرکز صحت آبادی کی خدمت کرے گا تو لوگ جانیں گے کہ سعودی عرب نے اس ایثار کی لاج رکھی۔ یہ رشتہ جذبات سے شروع ہوا تھا لیکن ریاستی اعتراف، شہری یادگار اور سماجی مفاہمت نے اسے ادارہ بنا دیا ہے، یہی وہ بندھن ہے جو قوموں کو اخوات کے رشتے میں باندھتا ہے۔
فرمان کی کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ بہادری کبھی تنہا واقعہ نہیں ہوتی یہ معاشروں کے بیچ اعتماد کی زنجیر کی ایک کڑی ہوتی ہے۔ اگر ہم نے اس ایک کڑی کی حفاظت کی، اسے بڑھایا، تو آنے والے دنوں میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات صرف معاہدوں میں نہیں، شہری اخلاقیات اور مشترکہ خدمت کے اداروں میں بھی پڑھے جائیں گے۔
فرمان علی خان کی قربانی اسی مستقبل کی دستک ہے، ایک ایسی دستک جسے سننا، سمجھنا اور پالیسی میں ڈھالنا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













