پاکستان کے سینیئر اداکار فیصل قریشی نے کہا ہے کہ اداکاری کی دنیا باہر سے جتنی چمکدار دکھائی دیتی ہے، اندر سے اتنی ہی کٹھن، پیچیدہ اور صبر آزما ہے۔
’وی نیوز‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے فیصل قریشی نے اپنے فنی سفر، ناکامیوں، سیکھنے کے مراحل اور کامیابی کے بعد کے دباؤ پر کھل کر بات کی۔
’شروع میں سب آسان لگا، پھر حقیقت نے جھنجھوڑا‘
انہوں نے کہاکہ یہ چکا چوند پہلے تو بہت آسان لگتی تھی، لیکن جب ریئلٹی چیک ملا تو پتا چلا کہ نہیں، یہ دنیا ذرا مشکل ہے۔ کافی کچھ کرنا پڑتا ہے۔ بھاگ دوڑ، محنت، قربانی۔
’بچپن سے انڈسٹری سے جڑے اور ایک طویل عرصہ اچھا نہیں بھی رہا، لیکن ہمت نہیں ہاری۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نوازا۔ چیزیں چلنا شروع ہوئیں، لوگوں نے پسند کرنا شروع کیا، اور تب جا کر میں نظر آنا شروع ہوا جو میرے لیے بہت بڑی بات تھی۔‘
’کامیابی کے بعد اصل امتحان شروع ہوتا ہے‘
فیصل قریشی کے مطابق ایوارڈ مل جانا یا کسی فلم یا ڈرامے کی کامیابی حاصل کر لینا سب کچھ نہیں ہوتا۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ اس کامیابی کو کیسے لے کر چلتے ہیں۔ جب لوگوں کی امیدیں آپ سے جُڑ جاتی ہیں، تو ایک دباؤ آتا ہے۔ پھر ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا پڑتا ہے۔
’میں سمجھتا تھا میں ہیرو نہیں بن سکتا‘
فلم انڈسٹری سے مایوسی کے بعد جب فیصل قریشی نے ڈرامہ انڈسٹری کا رخ کیا، تو ان کے دل میں شکوک تھے۔ ’مجھے لگتا تھا میں ہیرو نہیں بن سکتا۔ لیکن پھر میری نظر پاکستان کے ان عظیم اداکاروں (طلعت حسین، محمد قوی خان، فردوس جمال، عابد علی، شفیع محمد) پر پڑی جنہیں میں بچپن سے فالو کرتا آیا ہوں۔‘
’ماسٹر کلاس کا ماضی اور حال‘
فیصل قریشی بتاتے ہیں کہ آج سوشل میڈیا کا دور ہے اور کچھ سیکھنے کے لیے نوجوان سوشل پلیٹ فارم پر باآسانی ماسٹر کلاس کا انتخاب کرلیتے ہیں، ہمارے وقت میں ان سینیئرز کا کام ہی ہماری ماسٹر کلاس تھی۔
’ان کے ساتھ بیٹھنا، ان سے بات کرنا، ان کو دیکھنا یہی اصل تربیت تھی۔ میں نے خود لیجنڈز کے ڈرامے 20،20 بار دیکھے۔ ان کی لائنوں کی ادائیگی، کردار کی اپروچ، سب کچھ سیکھا اور آج بھی کہیں پھنس جاتا ہوں تو نعمان اعجاز جیسے سینیئرز سے مشورہ لیتا ہوں۔‘
’سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوتا‘
فیصل قریشی کا ماننا ہے کہ اداکاری کا کوئی مخصوص فارمولا نہیں ہوتا، یہ سب آپ کے اندر ہوتا ہے، جسے وقت اور تجربہ پالش کرتا ہے۔
’نوجوان اداکاروں کے لیے پیغام‘
فیصل قریشی نوجوان فنکاروں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ صرف شہرت کے پیچھے نہ بھاگیں بلکہ فن کو سمجھیں۔













