جنگ سے تباہ شدہ غزہ کے کھنڈرات میں 62 سالہ ہیام مقداد اپنے ننھے پوتے پوتیوں کے ساتھ زندگی کی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ بغیر جوتوں کے، گرد آلود پاؤں لیے، بچے ہر روز اپنی دادی کے ساتھ پانی کی تلاش میں ملبے کے ڈھیر عبور کرتے ہیں۔
ہیام مقداد کا کہنا ہے کہ اب بچوں کی خواہش اسکول یا پارک جانے کی نہیں بلکہ کھانا یا پانی تلاش کرنے کی ہے۔ بچوں کے خواب ختم ہو گئے ہیں، وہ اب ملبے پر کھیلتے ہیں۔

جنگ نے مقداد کا گھر اور کئی عزیز چھین لیے۔ 10 اکتوبر کو امریکی ثالثی سے جنگ بندی کے بعد وہ اپنے تباہ شدہ مکان کے ملبے پر واپس آئیں اور ایک خیمہ نصب کیا تاکہ زندگی کسی طرح چلتی رہے۔ انہوں نے بتایا کہ جنگ بندی کی خبر سن کر ایک آنسو خوشی کا اور ایک غم کا بہا۔
مزید پڑھیں: غزہ جنگ بندی معاہدہ: امریکن ایئرلائنز کا اسرائیل کے لیے فضائی آپریشن دوبارہ شروع کرنے کا اعلان
ہیام مقداد روز صبح اپنے بچوں کے لیے کھانے کا بندوبست کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارے پاس نہ پیسے ہیں، نہ سبزیاں، نہ بجلی لیکن پھر بھی میں امید نہیں چھوڑتی۔
اقوام متحدہ کے مطابق 2 سالہ جنگ میں غزہ کی 75 فیصد عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں اور 61 ملین ٹن ملبہ علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے حال ہی میں کہا کہ جنگ بندی کے باوجود غزہ میں انسانی امداد کی صورتحال میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آئی۔

رات کے اندھیرے میں جب بجلی نہ ہو تو مقداد ایک موم بتی جلا کر بچوں کو سناتی ہیں کہ ایک دن امن ضرور واپس آئے گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ زندگی واپس آئے، چاہے تھوڑی ہی کیوں نہ ہو۔ امید ابھی باقی ہے۔














