بھارت اور افغانستان کے درمیان تاریخی طور پر دوستانہ تعلقات ہیں۔ ظاہر شاہ کے دور میں بھارت اور افغانستان کے تعلقات کافی بہتر تھے۔ ظاہر شاہ کی حکومت ختم کر کے حکمران بننے والے سردار داؤد جو پاکستان مخالف تھے ان کے دور میں بھارت اور افغانستان کے تعلقات کافی قریبی نوعیت کے تھے۔
سردار داؤد اور بھارت اُس وقت روس کے قریب سمجھے جاتے تھے اور یہ دونوں ممالک پاکستان کے خلاف اقدامات کرتے تھے۔
اگر دیکھا جائے تو بھارت کی کوئی سرحد بھی افغانستان کے ساتھ نہیں مِلتی لیکن بھارت نے ہمیشہ افغان حکومتوں کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے جس کا واحد مقصد پاکستان کے خلاف اقدامات کرنا تھا۔
یہ بھی پڑھیے بھارتی ایما پر افغان طالبان کی کارروائیوں سے پورا خطہ کس طرح متاثر ہو رہا ہے؟
طالبان جنہیں بھارت نے ماضی میں دہشتگرد قرار دیا، اب وہی طالبان بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات بنا رہے ہیں۔ جس طرح سے افغان قائم مقام وزیرِخارجہ امیر خان مُتّقی کو بھارت میں پذیرائی دی گئی اور اُنہوں نے بھارت میں بیٹھ کر پاکستان مخالف بیانات دئیے۔ یہ چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ بھارت ہمیشہ سے افغانستان کو پاکستان کے خلاف متحرک کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے۔
طالبان رجیم آنے کے بعد، بھارت نے اپنی پالیسی میں تبدیلیاں کی ہیں تاکہ یہ مفادات محفوظ رکھے جائیں۔ اکتوبر 2025 تک، بھارت نے کابل میں اپنے تکنیکی مشن کو مکمل سفارت خانے میں تبدیل کر دیا ہے، جو طالبان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کا عکاس ہے۔
افغانستان کے حوالے سے بھارت کی پالیسی ایسی ہے جہاں وہ طالبان کو تسلیم کیے بغیر تعلقات بڑھا رہا ہے تاکہ اپنے مفادات کی حفاظت کرے، خاص طور پر پاکستان اور چین کے مقابلے میں۔
بھارت کو افغانستان کے معدنی ذخائر لیتھیئم لوہا اور تانبا سے بھی دلچسپی ہے لیکن اُس کی زیادہ دلچسپی اِس بات سے ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف افغانستان کو کس طرح سے استعمال کر سکتا ہے۔
ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن نہ لے کر طالبان بھارتی مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں،ایمبیسیڈر مسعود خان
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقِل مندوب ایمبیسیڈر مسعود خان نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے افغانستان کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں۔ افغان بادشاہ ظاہر شاہ کے دور سے دونوں مُلکوں کے درمیان اچھے تعلقات تھے اور اُس کے بعد حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کے ساتھ بھی بھارت کے اچھے تعلقات رہے ہیں۔ لیکن بھارت کے افغانستان کے ساتھ تعلقات ہمیشہ افغانستان کے فائدے کے لیے کم اور پاکستان سے دشمنی کی وجہ سے زیادہ رہے ہیں۔
اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد جب طالبان برسرِاقتدار آئے تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ پاکستان کی مخالفت کریں گے۔ کیونکہ طالبان کی امریکا کے خلاف جنگ میں پاکستان ہی اُن کا واحد سہارا اور حلیف تھا اور دنیا یہ سمجھتی تھی کہ افغان طالبان پاکستان کے شکرگزار ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیے افغانستان اور بھارت کی قربت، طالبان نے دہلی کو اہم علاقائی اور معاشی شراکت دار قرار دیدیا
ہندوستان نے افغانستان اور خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان پر بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ کیونکہ بھارت جانتا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ دوسری طرف افغان طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن نہ لے کر بھارتی مفادات کی حفاظت کر رہی ہے۔ اور افغان طالبان سفارتی لحاظ سے پاکستان کے مؤقف کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں جیسا کہ افغان قائم مقام وزیرِخارجہ امیرخان مُتّقی نے بھارت میں 2 بیانات کے ذریعے سے کیا۔ ایک یہ کہ دہشتگردی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ جب دہشتگرد افغانستان سے آ رہے ہیں تو اندرونی معاملہ کیسے ہے۔ دوسرا امیر مُتّقی نے کشمیر کو بھارت کا حصّہ قرار دیا۔
بھارت کو افغانستان کے ذریعے وسط ایشیاء کے وسائل تک رسائی ملتی ہے، مائیکل کوگلمین
واشنگٹن میں ولسن سنٹر سے وابستہ مائیکل کوگلمین نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ بھارت کا افغانستان میں ترقیاتی اور انسانی خدمات کے حوالے سے ایک ورثہ ہے جس کی وجہ سے افغان عوام بھارت کے بارے میں اچھے جذبات رکھتے ہیں اور وہ اِن جذبات کو کھونا نہیں چاہتے۔
بھارت کے افغان طالبان حکومت کے ساتھ اچھے ہوتے تعلقات کے تناظر میں پاکستان اکلوتی وجہ نہیں لیکن دہلی کی طالبان سے قربت اُس کے لیے اس لحاظ سے فتح ہے کہ طالبان لمبے عرصے تک پاکستان کا اثاثہ رہے ہیں جو اب پاکستان مخالف ہو گئے ہیں۔ طالبان کے ساتھ قریبی تعلقات کے ذریعے بھارت اِس بات کو یقینی بناتا ہے کہ افغان سرزمین بھارت کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہو۔ ساتھ ہی ساتھ بھارت کو افغانستان کے ذریعے وسط ایشیاء کے وسائل تک رسائی بھی ملتی ہے۔
ہم اپنا موقف بیان کرنے میں کمزور ہیں، فخر کاکاخیل
افغان اُمور کے ماہر صحافی فخر کاکاخیل نے وی نیوز کے ساتھ اپنے ایک گزشتہ انٹرویو میں کہا کہ بھارت کا افغان طالبان حکومت سے تعلقات کو فروغ دینے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ بھارت نہیں چاہتا کہ افغان سرزمین اُس کے خلاف استعمال ہو۔ اُنہوں نے کہا کہ افغانستان کی پاکستان کے خلاف نفرت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنا موقف بیان کرنے میں کمزور ہیں، ہم بتا ہی نہیں پائے کہ ہم نے افغانستان کے لیے کیا کچھ کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت نے افغانستان کے میڈیا پر بہت سرمایہ کاری کی ہے۔














