کیا افغانستان دوست ملک ہے؟ اس سوال کا جواب دل سے مانگوں تو وہ یکسو ہے کہ ہاں افغانستان ایک دوست ملک ہے مگر یہی سوال عقل سے پوچھ بیٹھوں تو وہ جواب میں بہت سارے سوالات سامنے رکھ دیتی ہے اور کہتی ہے کہ ان کا جواب تلاش کر لو اور پھر خود ہی فیصلہ کر لو۔
میں یہی سوال آج آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں تا کہ ہم مل جل کر ان پر غور کریں اورکسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کریں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ملک اتنا سادہ اور معصوم ہو سکتا ہے کہ بھارت جیسا ملک آئے اور سنہ 1947 سے لے کر اب تک افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال ہی کرتا رہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ افغانستان خود ہی پاکستان پر بھاؤ کھائے بیٹھا ہو اور اسے صرف موقع کی تلاش رہتی ہو؟
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں بھارت کی اسٹریٹیجک ڈیپتھ
دونوں میں ایک قدر مشترک ہے جو ہمارے ہاں کم ہی زیر بحث آئی ہے ۔ بھارت یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کے قیام نے بھارت ماتا کی تقسیم کی ہے۔ افغانستان کا یہ خیال ہے کہ پاکستان کے قیام سے افغانستان کی زمین تقسیم ہوئی ہے۔
بھارت کا بھی پاکستان کی زمین پر دعویٰ ہے اور حکومت کانگریس کی ہو یا بی جے پی کی، یہ دعویٰ قائم رہتا ہے۔
اسی طرح افغانستان کا بھی پاکستان کی زمین پر دعویٰ ہےاور حکومت ظاہر شاہ کی ہو، کرزئی کی ہو یا طالبان کی، اس دعوے میں کوئی فرق نہیں آتا۔
دنیا میں صرف 2 ہی ملک ہیں جو پاکستان کی سلامتی کے خلاف باقاعدہ ایک مؤقف رکھتے ہیں اور اس کی زمین پر قبضے کی اعلانیہ خواہش رکھتے ہیں۔ ایک بھارت ہے جو آج تک پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کر پایا، دوسرا افغانستان ہے جس کے وزرا دوحہ امن معاہدے کے اعلان کی بازگشت ختم ہونے سے پہلے، ساتھ ہی ڈیورنڈ لائن کی نفی بھی فرما دیتے ہیں۔
پاکستان کا نہ بھارت کی زمین پر کوئی دعویٰ ہے نہ افغانستان کی زمین پر۔ ( مقبوضہ کشمیر کا تنازعہ ایک الگ چیز ہےاور وہ بھارت کا حصہ نہیں ہے) لیکن ان دونوں ممالک کا بنیادی مؤقف ہی پاکستان کی جغرافیائی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
بھارت بھی پاکستان کے خلاف پانی کو ہتھیار بنا چکا ہے اور افغانستان بھی بھارت کی مالی معاونت کے ساتھ اسی راستے پر چل رہا ہے۔
بھارت کا کہنا ہے وہ سندھ طاس نامی کسی معاہدے کو نہیں مانتا اور افغانستان کے ساتھ پانی کی تقسیم کے لیے پاکستان کم از کم پچھلے 25 سال سے کوششیں کر رہا ہے لیکن افغانستان ایسے کسی معاہدے پر راضی نہیں ہوا۔
ڈیم بنانا ہر ملک کا حق ہے اور افغانستان کا بھی۔ لیکن بین الاقوامی قانون کے مطابق نیچے کی طرف واقع ریاستوں کا بھی پانی پر حق ہوتا ہے اور اس حق کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے جہاں بین الاقوامی قوانین موجود ہیں وہیں دو طرفہ معاہدے بھی کیے جاتے ہیں۔ پاکستان عشروں سے اس معاملے میں افغانستان کے ساتھ معاہدے کی کوشش کر رہا ہے مگر افغانستان نہیں مان رہا۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ ایران کے ساتھ تو افغانستان کا پانی کی تقسیم کا معاہدہ موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان سے ایسا کون سا قصور ہوا ہے کہ اس کے ساتھ نہ قوم پرست حکومت کوئی معاہدہ کرنے کو تیار تھی نہ اسلام پسند حکومتوں کو یہ گوارا ہوا؟
مزید پڑھیے: ’عمران خان ہی ریاست ہیں
قوم پرست تھے تو ہمیں بتایا جاتا تھا کہ وہ ناراض تھے کہ پاکستان نے امریکا کو دھوکہ کیوں دیا اور اندرون خانہ طالبان کا ساتھ کیوں دیا۔ اب طالبان ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ وہ خفا ہیں کہ پاکستان نے امریکا کا ساتھ کیوں دیا؟ یعنی ان میں اتفاق صرف اس بات پر ہے کہ پاکستان کا بازو مروڑنا ہی مروڑنا ہے۔
کیا ایران نے پاکستان سے زیادہ افغانستان کی خیر خواہی کی تھی؟ ایران نے تو افغان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود رکھا، ہمارے معاشرے نے تو انہیں دل میں جگہ دی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ ان کی تلخی تھمنے کو نہیں آ رہی اور اطراف میں باقی سب کے ساتھ ان کی جانب سے سب خیریت ہے؟
ریاستیں ایک دوسرے کا ساتھ بھی دیتی ہیں اور مل کر لڑتی بھی ہیں لیکن یہ صرف ہمارے ہاں ہوا کہ ہم نے سالہا سال تک افغانستان کو یوں ہیرو بنا کر پیش کیا کہ اب بعض حلقے ان کے مقابل خود اپنی ریاست پر فرد جرم عائد کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسی خوف ناک فالٹ لائن ہمارے علاوہ شاید ہی کسی ملک میں پیدا ہوئی ہو۔ اس فالٹ لائن کا کوئی علاج کیا کہیں زیر بحث ہے؟
مزید پڑھیں: بیت اللہ سے
افغانستان کے جتنے خیر خواہ پاکستان میں پائے جاتے ہیں کیا پاکستان کے اتنے خیر خواہ افغانستان میں بھی پائے جاتے ہیں؟ یہ جذبات اگر خیر خواہی پر ہی مبنی ہیں تو یہ خیر خواہی یک طرفہ کیوں ہے؟ یہ خیر خواہی ہی ہے یا یہ پراکسی ہے سماج کی رگوں میں اتر چکی ہے؟
کیا ہم اس معاملے کی سنگینی کو سمجھ رہے ہیں؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













