بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ملائیشیا میں ہونے والی آسیان سمٹ میں شرکت اس لیے منسوخ کر دی تاکہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ممکنہ ملاقات میں پاکستان کے معاملے پر بات چیت سے بچ سکیں۔
منگل کو شائع ہونیوالی بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق، وزیر اعظم مودی نے ہفتے کے آخر میں مجوزہ دورۂ ملائیشیا منسوخ کر کے آسیان سمٹ میں ورچوئل شرکت کو ترجیح دی۔
بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس نے الزام لگایا کہ مودی نے یہ فیصلہ امریکی صر ٹرمپ سے ممکنہ ملاقات کے خوف کی وجہ سے کیا۔
یہ بھی پڑھیں: صدر ٹرمپ کی جانب سے ایک مرتبہ پھر پاک بھارت جنگ کے دوران 7 طیاروں کے گرائے جانے کا تذکرہ
جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کا سالانہ اجلاس اور اس سے منسلک میٹنگز 26 سے 28 اکتوبر تک کوالالمپور میں منعقد ہوئیں۔
بلومبرگ کے مطابق، وزیراعظم مودی نے اس ہفتے ملائیشیا میں ہونے والے علاقائی رہنماؤں کے اجلاس میں شرکت سے اس لیے گریز کیا تاکہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات اور پاکستان پر ممکنہ گفتگو سے بچ سکیں۔
رپورٹ کے مطابق، بھارتی حکام کو اندیشہ تھا کہ ٹرمپ ایک بار پھر یہ دعویٰ دہرا سکتے ہیں کہ انہوں نے مئی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان 4 روزہ جنگی تنازع کے بعد جنگ بندی کرائی تھی۔
مزید پڑھیں: نریندر مودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا سامنا کرنے سے ہچکچانے لگے
رپورٹ میں ذرائع نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت اس حوالے سے سخت پریشان تھی۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ نریندر مودی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی ریاست بہار کی اہم انتخابی مہم میں مصروف تھے اور وہ کسی ایسے واقعے سے بچنا چاہتے تھے جو ان کے لیے سیاسی طور پر شرمندگی کا باعث بنتا۔
’وزیر اعظم مودی ریاست بہار میں پارٹی مہم کا مرکزی چہرہ ہیں، اور اگر صدر ٹرمپ نے پاکستان کے بارے میں کوئی بیان دیا تو ان کے مخالفین اسے مودی کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں، جس سے پارٹی کے انتخابی امکانات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘
مزید پڑھیں: پاکستان کے ساتھ بڑھتے تعلقات بھارت سے دوستی کی قیمت پر نہیں، مارکو روبیو
بلومبرگ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اگست میں بھی وزیر اعظم مودی نے ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس کی دعوت مسترد کر دی تھی، کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ امریکی صدر ان کی ملاقات پاکستانی آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر سے کرانے کی کوشش کریں گے۔
اگست میں واشنگٹن اور نئی دہلی کے تعلقات اس وقت خراب ہوئے جب ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت پر 50 فیصد تک تجارتی محصولات عائد کرتے ہوئے الزام لگایا کہ بھارت ماسکو سے رعایتی تیل خرید کر روس کی جنگی معیشت کو سہارا دے رہا ہے۔
اس کشیدگی کو مزید بڑھانے والی بات صدر ٹرمپ کا یہ اصرار تھا کہ انہوں نے مئی میں ہونے والے پاک بھارت تنازع کو ختم کرانے میں کردار ادا کیا تھا، جسے نئی دہلی آج تک تسلیم کرنے سے انکار کر رہا ہے۔














