وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ جاری مذاکرات میں تاحال کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہو سکی۔ گزشتہ شب پاکستانی وفد واپسی کے لیے ایئرپورٹ پہنچ چکا تھا، تاہم قطر اور ترکیہ کی درخواست پر وفد کو رکنے کا کہا گیا تاکہ ایک اور موقع دیا جا سکے۔
جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ اگر دوسری جانب سے ضد یا بھارت کی پراکسی کے طور پر کردار ادا کیا جا رہا ہے، تو ایسی صورت میں کچھ کہنا مشکل ہے۔
قطر اور ترکیہ مذاکرات میں مصالحتی کردار ادا کر رہے ہیں
خواجہ آصف نے بتایا کہ قطر کے وزیر دفاع اور ترکیہ کے انٹیلی جنس چیف مذاکراتی عمل کو کامیاب بنانے کے لیے متحرک ہیں۔
ان دونوں ممالک کی کوشش ہے کہ بات چیت میں کسی قسم کا تعطل پیدا نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ شب پاکستانی وفد واپسی کے لیے ایئرپورٹ پہنچ چکا تھا، تاہم قطر اور ترکیہ کی درخواست پر وفد کو رکنے کا کہا گیا تاکہ ایک اور موقع دیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تک مذاکرات دوبارہ شروع نہیں ہوئے، مگر پاکستانی وفد استنبول میں موجود ہے۔
کابل کے رویے میں تبدیلی کی امید
خواجہ آصف نے کہا کہ دوست ممالک کی کوشش ہے کہ کابل کا وفد مذاکرات میں نرمی دکھائے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگر قطر اور ترکیہ کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں افغان فریق کے رویے میں تبدیلی آتی ہے، تو مذاکراتی عمل میں بہتری کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔
پاکستان نے میزبانوں کی درخواست پر افغانستان سے دوبارہ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر دی
پاکستان نے میزبانوں کی درخواست پر افغانستان سے دوبارہ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق افغان طالبان حکومت کی درخواست پر پاکستان اور کابل کے درمیان مذاکرات کا ایک اور دور جلد استنبول میں متوقع ہے۔
افغان فریق کا مؤقف میں لچک کا عندیہ
ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان فریق اب اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگا ہے کہ پاکستان اپنی واضح اور دوٹوک پالیسی سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اسلام آباد کی پوزیشن بدستور غیر مبہم ہے کہ افغان سرزمین سے ہونے والی دہشتگردی کسی صورت قابلِ قبول نہیں اور پاکستان اپنی قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

اسلام آباد کا دوٹوک مؤقف
پاکستانی حکام کے مطابق اسلام آباد مذاکرات میں نیک نیتی کے ساتھ شریک ہوگا، تاہم اپنی بنیادی سلامتی کے مؤقف سے انحراف نہیں کرے گا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کی سیکیورٹی سرخ لکیریں غیر متزلزل ہیں اور ان پر کسی قسم کے دباؤ، پراپیگنڈے یا سفارتی چالوں کے ذریعے اثر نہیں ڈالا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان مذاکرات ناکام، پاکستان کا دہشتگردوں کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کا اعلان
نمائشی مذاکرات نہیں، ٹھوس ضمانتیں درکار
اسلام آباد کا مؤقف ہے کہ پاکستان مذاکرات چاہتا ہے، مگر محض نمائشی نہیں بلکہ ایسے مذاکرات جن سے سرحد پار دہشتگردی کے حوالے سے ٹھوس ضمانتیں حاصل ہوں۔

ٹی ٹی پی کے خاتمے پر زور
ذرائع کے مطابق پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ اگر افغان حکومت واقعی علاقائی استحکام چاہتی ہے اور مزید سفارتی تنہائی سے بچنا چاہتی ہے تو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اس سے وابستہ دہشت گرد نیٹ ورکس کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔
استنبول میں ہونے والے آئندہ دور میں پاکستان اپنے اصولی، خودمختار اور قومی سلامتی کے مؤقف سے رہنمائی لیتے ہوئے مذاکرات میں شرکت کرے گا۔














