’کیپٹن کرنل شیر خان جتنے بھی بہادر ہوتے اگر ان کے جسم پہ خاکی وردی نہ ہوتی تو آج یہ عزت نہ ہوتی‘

جمعہ 19 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے بھائی انور شیرخان نے قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’کیپٹن کرنل شیر خان جتنے بھی بہادر ہوتے اگر ان کے جسم پہ خاکی وردی نہ ہوتی تو آج یہ عزت نہ ہوتی‘

شہدائے پاک فوج کے لواحقین کا 9 مئی سے پیدا ہونے والی ملکی حالات کے تناظر میں اپنے خیالات کا اظہار اور عوام کو پیغام دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے بھائی انور شیر خان نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’کیپٹن کرنل شیر خان 23 سال پہلے کارگل میں شہید ہوئے تو دشمن نے بھی اس کی تعریف کی اور ایوارڈ دیا، اصل میں یہ کیپٹن کرنل شیر خان کی تعریف نہیں تھی بلکہ پاک آرمی کی تعریف تھی۔

انور شیرخان نے مزید کہا کہ کیپٹن کرنل شیر خان جتنے بھی بہادر ہوتے اگر ان کے جسم پہ خاکی وردی نہ ہوتی تو آج یہ عزت نہ ہوتی، براہ کرم پاکستان آرمی کو بدنام نہ کریں کیونکہ میں نے شہید کی عزت دیکھی ہے۔

ان کا کہنا تھا میں شہید کی طرف سے پوری قوم سے درخواست کرتا ہوں کہ چاہے وہ کسی بھی شہید کی تصویر ہو یا یادگار شہداء ہو یہ ہماری قوم کا اثاثہ ہیں ان اثاثوں کو ضائع نہ کریں، ان کی بے حرمتی مت کریں۔

مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی، کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے مجسمے کی بیحرمتی کرنیوالے ملزم کا بیان

مردان میں کیپٹن کرنل شیر خان شہید (نشان حیدر ) کے مجسمے کی بے حرمتی کے ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملزم نے مردان میں مظاہرے کے دوران کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے مجسمے کی بےحرمتی کی تھی۔

پولیس کے مطابق ملزم رحمت اللہ کو مردان سےگرفتار کیا گیا ہے، گرفتاری کے بعد کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے مجسمہ کی بےحرمتی کرنے والے ملزم رحمت اللہ کا ویڈیو بیان بھی سامنے آیا ہے۔

پولیس کے مطابق ملزم رحمت اللہ کو مردان سےگرفتار کیا گیا ہے

ملزم نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا کہ 9 تاریخ کو ایوب گیٹ کے سامنے جلوس میں مجسمے کی بیحرمتی کی تھی، مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک آرمی ہمارا فخر ہے، ہمیں آرمی کی قدر کرنی چاہیے، مجھ سےغلطی ہوئی ہے۔

کیپٹن کرنل شیر خان: وہ فوجی جس کی بہادری کا اعتراف دشمن نے بھی کیا

یہ بات شاذونادر ہی دیکھنے میں آتی ہے کہ دشمن کی فوج اپنے مقابل کے کسی فوجی کی بہادری کی داد دے اور اپنے حریف سے یہ کہے کہ اس فوجی کی بہادری کی قدر کی جانی چاہیے۔ 1999 کی کارگل جنگ کے دوران ایسا ہی واقعہ پیش آیا جب ٹائیگر ہل کے محاذ پر پاکستانی فوج کے کپتان کرنل شیر خان نے اتنی بہادری کے ساتھ جنگ کی کہ انڈین فوج نے ان کی شجاعت کا اعتراف کیا۔

اس لڑائی کی کمانڈ سنبھالنے والے بریگیڈیئر ایم ایس باجوہ نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ ’جب یہ جنگ ختم ہوئی تو میں اس افسر کا قائل ہو چکا تھا۔ میں 1971 کی جنگ بھی لڑ چکا ہوں، میں نے کبھی پاکستانی افسر کو ایسے قیادت کرتے نہیں دیکھا۔ باقی سارے پاکستانی فوجی کرتے پاجاموں میں تھے اور وہ تنہا ٹریک سوٹ میں تھا۔‘

بریگیڈیئر باجوہ کہتے ہیں: ‘کیپٹن شیر خان بہت بہادری سے لڑے۔ آخری میں ہمارا ایک نوجوان کرپال سنگھ جو زخمی پڑا ہوا تھا، اس نے اچانک اٹھ کر 10 گز کے فاصلے سے ایک ‘برسٹ’ مارا اور شیر خان کو گرانے میں کامیاب رہا۔’

ان کے مطابق پاکستانی حملے کے بعد ’میں نے پورٹرز بھیج کر کیپٹن کرنل شیر خان کی لاش کو نیچے منگوایا اور اسے بریگیڈ ہیڈکوارٹر میں رکھا۔’

محکمۂ ڈاک نے کیپٹن کرنل شیر خان کے اعزاز میں یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا

جب کیپٹن شیر خان کی لاش واپس کی گئی تو ان کی جیب میں بریگیڈیئر باجوہ نے کاغذ کا ایک پرزہ رکھ دیا جس پر لکھا تھا: ’12 این ایل آئی کے کپتان کرنل شیر خان انتہائی بہادری اور بےجگری سے لڑے اور انہیں ان کا حق دیا جانا چاہیے۔‘

کپیٹن کرنل شیر خان کا تعلق پاکستانی فوج کی سندھ رجمنٹ سے تھا اور کارگل کی لڑائی میں وہ ناردرن لائٹ انفنٹری سے منسلک تھے۔

دادا نے کرنل کا لفظ ان کے نام کا حصہ بنا دیا تھا

کیپٹن کرنل شیر خان خیبرپختونخوا کے گاؤں نواکلی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے دادا نے کشمیر میں 1948 کی مہم میں حصہ لیا تھا۔ انہیں یونيفارم میں ملبوس فوجی اچھے لگتے تھے چنانچہ ان کے یہاں جب پوتا پیدا ہوا تو انہوں نے کرنل کا لفظ ان کے نام کا حصہ بنا دیا تھا۔ تاہم اس وقت انہیں اندازہ نہیں تھا کہ اس نام کی وجہ سے ان کے پوتے کی زندگی میں مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔

کارگل پر لکھی گئی کتاب ‘وٹنس ٹو بلنڈر-کارگل سٹوری انفولڈز’ کے مصنف اشفاق حسین بتاتے ہیں کہ ‘کرنل’ لفظ شیر خان کے نام کا حصہ تھا اور ‘وہ اسے بہت فخر سے استعمال کرتے تھے۔ کئی بار اس سے کافی مشکلیں پیدا ہو جاتی تھیں۔

‘جب وہ فون اٹھا کر کہتے تھے ‘لیفٹیننٹ کرنل شیر سپیکنگ’ تو فون کرنے والا سمجھتا تھا کہ وہ کمانڈنگ افسر سے بات کر رہا ہے اور وہ انھیں ‘سر’ کہنا شروع کر دیتا تھا۔ تب شیر مسکراکر کہتے تھے کہ وہ لیفٹیننٹ شیر ہیں۔ میں ابھی آپ کی بات کمانڈنگ افسر کے ساتھ کرواتا ہوں۔‘

   کیپٹن شیر خان جنوری 1998 میں ڈومیل سیکٹر میں تعینات تھے۔ 4 جولائی 1999 کو کیپٹن شیر کو ٹائیگر ہل پر جانے کے لیے کہا گیا۔ وہاں پاکستانی فوجیوں نے 3 دفاعی لائنیں بنا رکھی تھی جنہیں کوڈ نمبر 129 اے، بی اور سی دیا گیا تھا۔ 5 جولائی 1999 کو پاکستانی اور انڈین جوانوں کی دست بدست لڑائی ہو رہی تھی۔ تبھی ایک انڈین نوجوان کا برسٹ کیپٹن کرنل شیر خان کو لگا اور وہ شہید ہو گئے۔ کیپٹن شیر خان کو پاک فوج کے سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔

18 جولائی 1999 کی نصف شب کو ملیر چھاؤنی کے سینکڑوں فوجی کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پہنچ گئے تھے جنہوں نے کیپٹن کرنل شير خان کا جسدِ خاکی وصول کیا۔ ان کے 2 بھائی اپنے آبائی گاؤں سے وہاں آئے تھے۔ نماز جنازہ کے بعد تابوت کو پاک فضائیہ کے طیارے پر اسلام آباد پہنچایا گیا جہاں ایک بار پھر نماز جنازہ ادا کی گئی۔

کیپٹن کرنل شیر خان کو ان کے آبائی گاؤں میں سپردِ خاک کیا گیا تھا

اس موقع پر پاکستان کے صدر رفیق تاڑر بھی موجود تھے۔ اس کے بعد کیپٹن شیرخان کا جسدِ خاکی ان کے آبائی گاؤں لایا گیا جہاں ہزاروں افراد نے پاک فوج کے اس بہادر سپوت کو الوداع کہا۔ ان کے آبائی گاؤں کا نام ان کے نام پر رکھ دیا گیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp