روسی افواج کی دفاعی پوزیشن، یوکرینی نیوکلیئر پاور پلانٹ کی حفاظت خطرے میں

جمعہ 19 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یوکرینی فوج اور روس کی ویگنر پرائیویٹ آرمی بخموت شہر کے ارد گرد مزید روسی افواج کی پسپائی کی تصدیق کی ہے جب کہ دوسری جانب گزشتہ 6 ماہ کے دوران اپنی منظم منصوبہ بند جوابی کارروائی سے قبل یوکرینی فوج نے اپنی سب سے بڑی پیش قدمی جاری رکھی ہوئی ہے۔

دوسری جانب عینی شاہدین کے مطابق خطے میں متوقع یوکرینی جوابی کارروائی سے قبل روسی فوجی دستے حالیہ ہفتوں میں جنوبی یوکرین میں واقع زپوریشا نیوکلیئر پاور پلانٹ کے اندر اور اس کے ارد گرد دفاعی پوزیشن میں اضافہ کررہے ہیں۔

زپوریشا شہر کے چاروں طرف نئی خندقیں کھودی گئی ہیں اور مزید بارودی سرنگیں بچھائی گئی ہیں۔ پلانٹ میں نگرانی کے کیمرے شمال کی طرف وسیع ذخائر کے پار یوکرین کے زیر کنٹرول علاقے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

روسی فوجیوں نے کئی مہینوں سے نیوکلیئر پاور پلانٹ کی کچھ عمارتوں کے اوپر مورچہ بندی کرتے ہوئے ڈرون کی ممکنہ روک تھام کے لیے جال لگادیے ہیں۔

پاور پلانٹ پر کام کرنے والے دو یوکرینی شہریوں کے بیانات جنگ کی وجہ سے اس اہم یوکرینی تنصیب کی سلامتی کو لاحق خطرات کی نشاندہی کرتے ہیں۔

یوکرین کی ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی، روسی وزارت دفاع اور روسی ریاستی جوہری توانائی کی کمپنی روزاٹوم نے اینر ہودر شہر میں قلعہ بندیوں اور جوابی کارروائی سے لاحق سیکیورٹی خطرات پر تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

جوہری صنعت سے وابستہ ماہرین نے صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ پلانٹ کو پہنچنے والے کسی بھی نقصان کے باعث شہریوں، ارد گرد کے علاقے، جنگ اور عالمی جوہری صنعت کے لیے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔

تھنک ٹینک نیوکلیئر تھریٹ انیشی ایٹو کے ڈائریکٹر نکولس روتھ کا کہنا ہے کہ جوہری ری ایکٹر جنگی علاقوں کے لیے ڈیزائن نہیں جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ جنگی علاقے میں محفوظ ہونے ۔

انٹرنیشنل اٹامک انجی ایجنسی کی ٹیم کے گزشتہ برس زپوریشا نیوکلیئر پاور پلانٹ کے معائنہ کے موقع پر ری ایکٹر نمبر2 کا بیرونی منظر ۔ (فائل فوٹو)

یوکرین کی نیشنل نیوکلیئر انرجی جینیریٹنگ کمپنی کے سربراہ پیٹرو کوٹن نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں یوکرینی افواج کی جانب سے اس جگہ پر براہ راست حملہ کے خدشہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوکرینی فوج سپلائی لائنیں کاٹ کر روسیوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں۔

تاہم عالمی برادری میں اس بات پر تشویش پائی جاتی ہے کہ 6 ری ایکٹرز پر مشتمل یورپ کا سب سے بڑا ایٹمی پلانٹ اس چومکھی لڑائی میں پھنس سکتا ہے۔ دوسری جانب فوجی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یوکرین روسی افواج کو زپوریشا کے علاقے میں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرے گا۔

عالمی جوہری معاملات کی نگرانی پر مامور اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ خطے میں فوجیوں کی موجودگی اور بڑھتی ہوئی جنگی سرگرمیاں فوری کارروائی کی متقاضی ہیں۔ اس نے کئی مہینوں سے پلانٹ میں کسی بڑے حادثے کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔

سفارتی ذرائع کے مطابق انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی رواں ماہ کے آخر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والے معاہدے کو اس نیوکلیئر پلانٹ کے تحفظ کے لیے پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

بائیں طرف دو کولنگ ٹاورز اور چھ ری ایکٹرز کی عمارتیں جو نکوپول ساحل سے دیکھی جاسکتی ہیں۔ کولنگ ٹاورز اور ری ایکٹرز کے درمیان بڑی عمارت جوہری پلانٹ سے آگے زپوریشا تھرمل پاور اسٹیشن میں واقع ہے۔ (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

جاپان میں، جہاں صرف ایک دہائی قبل زلزلے اور سونامی نے فوکوشیما نیوکلیئر پاور پلانٹ کو بجلی کی سپلائی منقطع کر دی تھی جس کی وجہ سے ری ایکٹر پگھل گئے تھے، حکومت نے کہا کہ وہ زپوریشا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

جاپان کی وزارت اقتصادیات، تجارت اور صنعت میں نیوکلیئر انرجی پالیسی ڈویژن کے ڈائریکٹر سترو یاسوراوکا نے کہا ہے کہ یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے اور ہم اس پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔

اپریل میں، جاپان نے زپوریشا پاور پلانٹ کی حفاظت کو محفوظ بنانے کے لیے کوشاں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کو 2 ملین یورو فراہم کیے تھے۔

 

یوکرین کی نیشنل نیوکلیئر انرجی جینیریٹنگ کمپنی کے سربراہ پیٹرو کوٹن کے مطابق پلانٹ کی حفاظت کو سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ لڑائی پلانٹ کے ری ایکٹرز کو ٹھنڈا کرنے کے لیے درکار آخری بیرونی پاور لائن کو کاٹ سکتی ہے۔

’ایسا ہونے کی صورت میں صرف بیک اپ ڈیزل جنریٹر پلانٹ کے پگھلنے کی راہ میں رکاوٹ بنے کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔ اگر تمام پمپ بند ہو جاتے ہیں، تو آپ کے پاس ڈیڑھ گھنٹے سے لے کر تین دن تک کا وقت ہو گا اور آپ کو یہ پگھلنا پڑے گا۔‘

بیک اپ جنریٹرز نے پہلے ہی مختصر مدت کے لیے چھ بار فعال ہوچکے ہیں، جب شیلنگ کے باعث بجلی چلی گئی تھی اور جس پر روس اور یوکرین نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے تھے۔

اینرہودر کا پلانٹ اور شہر میلیٹوپول سے ایک مرکزی سڑک کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں، جو جنوب مشرقی زپوریشیا کے علاقے میں روس کے زیر قبضہ سب سے بڑا شہر ہے  جو روس کو مقبوضہ کریمیا کے جزیرہ نما کو زمینی راہداری فراہم کرتا ہے۔

پیٹرو کوٹن سمجھتے ہیں کہ اگر ایسا لگتا ہے کہ یہ سڑک منقطع ہونے والی ہے تو روسی افواج کو پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ ان کا خیال ہے کہ روسی افواج پلانٹ میں پہلے سے ہی مشقیں کر رہی ہیں تاکہ انخلاء کی صورت میں آسانی رہے۔

’میری رائے میں، وہ انخلاء کی تیاری کر رہے ہیں، اس لیے وہ سب کچھ ایک جگہ پر لا رہے ہیں تاکہ سب کچھ سمیٹ کر وہاں سے نکلنے کے لیے تیار رہیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp