مسلم جنوبی ایشیائی نژاد ظہران ممدانی نیویارک کے میئر منتخب ہوگئے ہیں، وہ نیویارک کے میئر بننے والے پہلے مسلمان امیدوار بن گئے ہیں۔
مسلمان امیدوار ظہران ممدانی آزاد امیدوار اور سابق گورنر اینڈریو کومو اور ری پبلکن امیدوار کرٹس سلوا کے ساتھ مقابلہ کررہے تھے، انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ نے ان کی بھرپور مخالفت کی اور انہیں کمیونسٹ قرار دے کر گرفتار کرنے اور الیکشن جیتنے پر نیویارک کی فنڈنگ روکنے کی بھی دھمکی دی تھی۔
یہ بھی پڑھیے: کون ہوگا نیویارک کا میئر، پولنگ جاری، ظہران ممدانی کو برتری حاصل، نتیجہ کب تک آنے کا امکان ہے؟
خود کو سوشلسٹ ڈیموکریٹ قرار دینے والے 34 سالہ ظہران ممدانی کی جیت کو ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک دھچکا قرار دیا جا رہا ہے جن کی دوسری مدت صدارت کے آغاز سے اب تک یہ سب سے اہم انتخابات ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق شہر بھر میں 2 ملین سے زائد ووٹ ڈالے گئے، جو 1969 کے بعد میئر کے انتخاب میں سب سے زیادہ ہیں۔
ڈیموکریٹس کی فتح
سی این این کے مطابق ظہران ممدانی کے علاوہ ڈیموکریٹ امیدوار ابیگیل اسپینبرگر ورجینیا کی پہلی خاتون گورنر منتخب ہوگئی ہیں جبکہ میکی شیریل نیوجرسی کی پہلی ڈیموکریٹ خاتون گورنر منتخب ہوگئیں۔
یہ بھی پڑھیے: نیویارک میئر کے لیے امیدوار ظہران ممدانی اور امریکی صدر ٹرمپ آمنے سامنے
ڈیموکریٹ امیدوار غزالہ ہاشمی نے ورجینیا کے معاون گورنر کے انتخاب میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور اس کے ساتھ وہ ملک کی تاریخ میں پہلی مسلم خاتون بن گئیں ہیں جنہوں نے ریاستی سطح کا عہدہ جیتا ہے۔
کامیابی کے بعد پہلا خطاب
اپنی کامیابی کے بعد پہلا خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اپنے حریف اینڈریو کومو کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور کہا کہ ’میں انہیں نجی زندگی میں کامیابی کی دعا دیتا ہوں، لیکن آج کے بعد میں ان کا نام آخری بار لے رہا ہوں، کیونکہ ہم اس سیاست کو چھوڑ رہے ہیں جو چند لوگوں کے لیے تھی، سب کے لیے نہیں۔‘
خود کو سوشلسٹ ڈیموکریٹ قرار دینے والے 34 سالہ ظہران ممدانی نے کہا، ’میرے دوستو، ہم نے ایک سیاسی بادشاہت الٹ دی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے: ٹرمپ نے ظہران ممدانی کے جیتنے پر نیویارک کی فنڈنگ میں کٹوتی کی دھمکی دیدی
ممدانی نے اپنی فتح کو تبدیلی کے مینڈیٹ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ’آج رات آپ نے ایک نئے طرزِ سیاست، ایک ایسی شہر کے لیے مینڈیٹ دیا ہے جو سب کے لیے قابلِ برداشت ہو۔ یکم جنوری کو میں نیویارک سٹی کا میئر کے طور پر حلف اٹھاؤں گا۔‘
ممدانی نے کہا کہ نیویارک سٹی اس سیاسی تاریکی کے دور میں روشنی کی علامت بنے گا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ تمام نیویارکرز کے لیے لڑیں گے ’چاہے آپ تارکِ وطن ہوں، ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے رکن، وہ سیاہ فام خواتین جنہیں ڈونلڈ ٹرمپ نے نوکریوں سے برخاست کیا، یا وہ مائیں جو مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہیں، آپ کی جدوجہد ہماری جدوجہد ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے: نیویارک کے پہلے مسلم میئر ظہران ممدانی کون ہیں؟
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی انتظامیہ یہودی کمیونٹی کے ساتھ کھڑی رہے گی اور انسدادِ سام دشمنی کے خلاف ہرگز نہیں ڈگمگائے گی، جبکہ ایک ملین سے زائد مسلم نیویارکرز کو یہ یقین دلایا کہ ’یہ شہر ان کا اپنا ہے اور نیویارک میں اسلاموفوبیا کی کوئی گنجائش نہیں۔ میں مسلمان ہوں اور کسی کو اس پر شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔‘
ظہران ممدانی نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ، چونکہ مجھے پتا ہے تم دیکھ رہے ہو، میرے پاس تمہارے لیے چار الفاظ ہیں، اور زیادہ شور مچاؤ!‘
یہ بھی پڑھیے: ’بات نہیں مانی تو گرفتار کرلوں گا‘، ٹرمپ کی دھمکی پر ظہران ممدانی پھٹ پڑے
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم بدعنوان مالکان کا احتساب کریں گے، کیونکہ ٹرمپ جیسے ارب پتیوں نے اس شہر میں کرایہ داروں کا بہت استحصال کیا ہے۔ ہم ٹیکس چوری اور ناجائز چھوٹ کے کلچر کو ختم کریں گے، اور مزدور طبقے کے حقوق مضبوط بنائیں گے تاکہ کسی بھی آجر کو ان کا استحصال کرنے کی جرات نہ ہو۔‘
ٹرمپ کا پہلا ردعمل
ظہران ممدانی کے نیویارک سٹی کے پہلے مسلمان میئرمنتخب ہونے اور اہم عہدوں پر ڈیموکریٹس کی فتح کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اپنا پہلا ردِعمل دیا ہے۔
ٹرمپ نے ‘ٹروتھ سوشل’ پر اپنی پوسٹس میں انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کی ناکامی کی وجوہات پر بھی تبصرہ کیا اور کہا کہ ‘بیلٹ پیپر ٹرمپ پر نہیں تھے، اور حکومت کی بندش (شٹ ڈاؤن)، یہی 2 وجوہات تھیں جن کی وجہ سے ریپبلکنز آج رات انتخابات ہار گئے۔’
یہ بھی پڑھیے: ٹرمپ کی تمام تر دھونس دھمکیاں ناکام، ظہران ممدانی نیویارک کے پہلے مسلم میئر منتخب
ریپبلکن رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے ایک اور پوسٹ میں کہا کہ ووٹنگ اصلاحات پاس کریں، ووٹر آئی ڈی لازمی بنائیں، میل کے ذریعے ووٹنگ ختم کریں۔ سپریم کورٹ کو ’پیکنگ‘ سے بچائیں، دو ریاستی اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔ فلی بسٹر کو ختم کریں۔’
واضح رہے کہ فلی بسٹر سے مراد سینیٹ میں وہ بحث ہے جو کسی قانون سازی کو روکنے کے لیے طویل مدت تک کی جاتی ہے، اس کا مقصد ہوتا ہے کہ اقلیت کو بھی قانون سازی میں آواز ملے اور اکثریت اپنی مرضی سے ہر قانون منظور نہ کر سکے۔
بارک اوباما کی طرف سے مبارکباد
سابق صدر بارک اوباما نے اس موقع پر ظہران ممدانی کو مبارکباد دی۔ انہوں نے ایکس پر لکھا، ’تمام ڈیموکریٹک امیدواروں کو آج کی کامیابی پر مبارک ہو۔ یہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ جب ہم ایسے مضبوط، دور اندیش رہنماؤں کے گرد اکٹھے ہوتے ہیں جو اہم مسائل کی پرواہ کرتے ہیں، تو ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ابھی بہت سا کام باقی ہے، لیکن مستقبل اب کچھ زیادہ روشن دکھائی دیتا ہے۔‘
ظہران ممدانی کون ہیں؟
ظہران ممدانی 18 اکتوبر 1991 کو یوگنڈا کے دارالحکومت کَمپالا میں پیدا ہوئے، ان کے والد محمود ممدانی ممتاز محقق اور کولمبیا یونیورسٹی میں استاد ہیں، جبکہ والدہ میرا نائر بھارت کی عالمی شہرت یافتہ فلم ساز ہیں، جنہوں نے ’مون سون ویڈنگ‘ ’دی ریلکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ‘ اور ’دی نیم سیک‘ جیسی فلمیں بنائی ہیں۔
ظہران ممدانی کا خاندان جلد ہی نیویارک منتقل ہوگیا، جہاں ظہران نے بچپن کے تجربات کے ذریعے نسلی اور طبقاتی تفاوت کو قریب سے محسوس کیا۔
انہوں نے نیویارک کے برونکس ہائی اسکول آف سائنسز سے تعلیم حاصل کی اور پھر وڈوائن کالج سے ایفریکن اسٹڈیز میں بیچلر ڈگری حاصل کی، تعلیم کے دوران ہی وہ سماجی انصاف اور عوامی حقوق کی تحریکوں سے وابستہ ہوئے۔

سیاست میں آنے سے پہلے ظہران نے نیویارک میں رہائشی بحران کے شکار افراد کے ساتھ بطور ہاؤسنگ کونسلر کام کیا، جہاں انہوں نے گھروں سے بے دخلی کے خلاف جدوجہد کی، اسی تجربے نے انہیں عام شہریوں کی مشکلات کے قریب کیا، وہ مشکلات جنہیں اکثر روایتی سیاست دان نظرانداز کرتے ہیں۔
2020 میں ظہران ممدانی نے پہلی بار نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کے ضلع 36 کوئینز سے الیکشن لڑا اور شاندار کامیابی حاصل کی، یوں وہ نیویارک اسمبلی کے چند انقلابی نوعیت کے نوجوان اراکین میں شامل ہو گئے جنہوں نے ’ڈیموکریٹک سوشلسٹ‘ نظریات کو عوامی سطح پر مؤثر انداز میں پیش کیا۔
2025 میں ظہران ممدانی نے ایک بڑا سیاسی قدم اٹھاتے ہوئے نیو یارک سٹی میئر کے انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کیا، ان کی مہم روایتی نعروں کے بجائے سماجی برابری، عوامی خدمات اور شفاف طرزِ حکمرانی کے پیغام پر مرکوز ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق، ممدانی کی مہم نوجوانوں، تارکینِ وطن اور اقلیتی برادریوں کے درمیان غیرمعمولی مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ وہ خود کو ’نیویارک کی اصل آواز‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں، ایک ایسی آواز جو طاقت کے ایوانوں سے نہیں بلکہ گلیوں اور محلوں سے ابھری ہے۔













