پاکستان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ افغان طالبان حکومت کو ان وعدوں کا جوابدہ بنایا جائے جو اس نے دوحا معاہدے اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر کیے تھے مگر پورے نہیں کیے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق طالبان نے دوحا معاہدہ (2020) اور متحدہ عرب امارات و پاکستان کے ساتھ سہ فریقی معاہدے میں تحریری و زبانی یقین دہانیاں کرائی تھیں، جن کے عوض انھیں مالی امداد اور سفارتی قبولیت ملی، مگر انھوں نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔
ذرائع کے مطابق افغان طالبان نے بین الافغان مذاکرات کے وعدے کی بھی خلاف ورزی کی۔ دوحا معاہدے کے تحت 5 ہزار طالبان قیدی رہا کیے گئے تھے، جن میں سے متعدد دوبارہ عسکریت پسندی میں ملوث ہو گئے۔ طالبان نے سیاسی مذاکرات کے بجائے کابل پر قبضہ کر لیا اور خواتین کی تعلیم و روزگار پر پابندیاں عائد کر دیں۔
مزید پڑھیں: کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ طالبان حکومت میں شامل ہیں، وزیرِ دفاع خواجہ آصف
رپورٹ کے مطابق موجودہ طالبان حکومت میں نسلی و مذہبی امتیاز نمایاں ہے۔ اقتدار پر مکمل طور پر پشتون گروہ کا غلبہ ہے، تاجک، ازبک اور ہزارہ اقلیتوں کو نمائندگی نہیں دی گئی۔ قندھار شوریٰ مکمل طور پر پشتون قیادت پر مشتمل ہے جبکہ 49 رکنی کابینہ میں زیادہ تر سابق جنگجو شامل ہیں۔
عالمی اداروں اور انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق طالبان نے دوحا معاہدے کے سیکنڈ پارٹ کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ 2022 میں القاعدہ رہنما ایمن الظواہری کابل میں ہلاک ہوئے جبکہ اقوامِ متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق سیف العدل اور حمزہ بن لادن بھی کابل میں طالبان کی پناہ میں موجود ہیں۔ اسی طرح طالبان کے خفیہ ادارے جی ڈی آئی پر تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) کے رہنماؤں کو رہائش، پاسز اور تحفظ دینے کے الزامات ہیں۔
مزید پڑھیں: ’تجھ کو پرائی کیا پڑی ۔۔۔‘: طالبان حکومت ہمارے بجائے اپنے معاملات پر توجہ دے، پاکستان
ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کو امریکا اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے ماہانہ 8 کروڑ ڈالر کی امداد ملتی ہے، جس میں سے کچھ رقم ٹی ٹی پی کے نیٹ ورکس کو منتقل کی جا رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق رواں سال کے دوران 267 افغان شہری پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں مارے گئے، جن میں اپریل 2025 میں شمالی وزیرستان اور اگست 2025 میں ژوب کے بڑے آپریشنز شامل ہیں۔ پاکستانی حکام کے مطابق افغان طالبان نے بعد میں ان ہلاک افراد کی لاشوں کی واپسی کی درخواست بھی کی، جو ان کی براہِ راست شمولیت کا ثبوت ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں دہشتگردی کے پیچھے طالبان حکومت کے حمایت یافتہ افغان باشندے ملوث ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ
مزید بتایا گیا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے 58 تربیتی مراکز کی نشاندہی کی جا چکی ہے، جہاں نیٹو کے 7 ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں۔
پاکستان کے مطابق 2021 سے اب تک افغانستان سے متعلق 225 فلیگ میٹنگز، 836 احتجاجی نوٹسز، 13 باضابطہ ڈیمارشز اور اعلیٰ سطح پر متعدد سفارتی رابطے کیے جا چکے ہیں، مگر پیشرفت محدود ہے۔
ترجمان کے مطابق عالمی برادری کو اب طالبان حکومت کو اس کے وعدوں کا ذمہ دار ٹھہرانا ہوگا، تاکہ خطے میں پائیدار امن، انسدادِ دہشتگردی اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔














