27ویں آئینی ترمیم کی منظوری پر نائب وزیراعظم و سینیٹرزاسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی خواہش تھی کہ صدر کو استثنیٰ ملنا چاہیے پھر وہ استثنیٰ دیا گیا ہے۔
27ویں آئینی ترمیم کی منظوری پر نائب وزیراعظم و سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ وہ سب کو اس ترمیم کی منظوری پر مبارکباد پیش کرتے ہیں، یہ ایک تاریخی ترمیم ہے جو کوئی نئی چیز نہیں، یہ میثاق جمہوریت کا نامکمل ایجنڈا تھا، میثاق جمہوریت 2006 میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہوا تھا، اس پر نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے دستخط کیے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ سے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اب آگے کیا ہوگا؟
اسحاق ڈار نے کہا کہ میثاق جمہوریت کی سب سیاسی جماعتوں نے حمایت کی تھی، ان میں بانی پی ٹی آئی عمران خان بھی شامل تھے، اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمان بھی اس میں شامل تھے، میثاق جمہوریت کی 2چیزیں ہی رہ گئی تھیں جن میں آئینی عدالت شامل ہے، 23سالوں سے یہ معاملہ التوا میں تھا۔
انہوں نے کہا کہ علیحدہ عدالتی ڈھانچے سے عدلیہ کی کارکردگی میں بہتری آئے گی اور یہ ایک مثبت قدم ہےآئینی اپیلوں کا بروقت فیصلہ ہوسکے گا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ دنیا بھر میں صدر کو استثنیٰ حاصل ہے ، یپلز پارٹی کی خواہش تھی کہ صدر کو استثنیٰ ملنا چاہیے پھر وہ استثنیٰ دیا گیا ہے تاہم اس کی وضاحت بھی دے دی گئی ہے کہ اگر سابق صدر کوئی عوامی عہدہ سنبھالتا ہے تو یہ استثنیٰ ختم ہوجائے گا۔
’مسلح افواج کے سربراہوں کے لیے آئین میں باقاعدہ طور پر 5 اسٹار اسپیس شامل کی گئی‘
انہوں نے بتایا کہ دوسری اہم ترمیم آرٹیکل 243 میں کی گئی جس کے تحت مسلح افواج کے سربراہوں کے لیے آئین میں باقاعدہ طور پر 5 اسٹار اسپیس شامل کی گئی ہے۔ یہ حیثیت پہلے ضابطوں میں موجود تھی مگر آئین کا حصہ نہیں تھی۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے موجودہ ججز کی سینیارٹی متاثر نہیں ہوگی، چیف جسٹس پاکستان کی سینیارٹی بھی برقرار رہے گی۔
’اب سپریم کورٹ اور فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ دونوں کے چیف جسٹس اور ججز مشاورت سے کام کریں گے‘
اسحاق ڈار نے کہا کہ آئین میں کی گئی یہ ترامیم مجموعی طور پر 59 شقوں پر مشتمل ہیں جو ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ ان میں ججز کے تبادلوں سے متعلق ترامیم اور جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں تبدیلیاں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب سپریم کورٹ اور فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ دونوں کے چیف جسٹس اور ججز مشاورت سے کام کریں گے۔
ترمیم مختلف جماعتوں کی باہمی مشاورت سے تیار ہوئی
انہوں نے کہا کہ یہ ترمیم مختلف جماعتوں کی باہمی مشاورت سے تیار ہوئی۔ حکومت، اپوزیشن، پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، مسلم لیگ (ق)، آزاد اراکین سب نے تعاون کیا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت نے وعدے کے مطابق یہ بل پہلے سینیٹ میں پیش کیا اور پھر قومی اسمبلی میں بحث کے بعد ووٹنگ کرائی۔
یہ بھی پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کا معاملہ، پارلیمنٹیرینز کیا کہتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ پارلیمانی روایات کے مطابق اس بل کو قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے سپرد کیا گیا، جہاں سینیٹر فاروق ایچ نائیک اور دیگر اراکین نے دن رات محنت کی۔ اس دوران قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بھی شریک کیا گیا تاکہ دونوں ایوانوں کی مشاورت سے یہ آئینی ترمیم مکمل ہو۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے دوران خیبر پختونخوا کے نام پر طویل بحث ہوئی تھی۔ اے این پی کی جانب سے پختونستان یا پختونخوا کا مطالبہ تھا جبکہ دوسری رائے خیبر یا ہزارہ کے حق میں تھی۔ بالآخر سمجھوتے کے نتیجے میں خیبر پختونخوا کا نام منظور کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اب بھی سیاسی ارتقا جاری ہے اور یہ تمام عمل پارلیمان کے دائرے میں آگے بڑھے گا۔
مقامی حکومتوں سے متعلق بھی ترامیم تجویز
انہوں نے کہا کہ مقامی حکومتوں سے متعلق بھی ترامیم تجویز کی گئی ہیں تاکہ انہیں آئینی تحفظ دیا جاسکے۔ پنجاب اسمبلی پہلے ہی اس حوالے سے قرارداد منظور کر چکی ہے۔
این ایف سی ایوارڈ
نائب وزیراعظم نے این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے کہا کہ 2009 کے ایوارڈ میں 19 فیصد مالی ایڈجسٹمنٹ کی گئی تھی جس کے تحت وفاقی حکومت کا حصہ کم کر کے 42.5 فیصد سے 38.5 فیصد کر دیا گیا، جبکہ صوبوں کا حصہ 57.5 فیصد کر دیا گیا۔ یہ اقدام صوبوں اور وفاق کے درمیان مالی توازن پیدا کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔
ملکی آبادی کے لیے مشترکہ کوششیں
انہوں نے کہا کہ ملک کی آبادی ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے اور اس مسئلے کو اسلامی اصولوں کے مطابق حل کرنے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو مشترکہ کوشش کرنا ہوگی۔ اسی طرح نصابِ تعلیم اور بنیادی تعلیم کے معیار میں یکسانیت کے لیے بھی وفاق اور صوبوں کے درمیان رابطے کی ضرورت ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ ترمیم حتمی مرحلہ نہیں بلکہ ایک ارتقائی عمل ہے۔ آئین میں بہتری کے لیے ہر سیاسی قوت کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے تمام جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر کے انہیں آن بورڈ کیا ہے، تاکہ قومی اتفاقِ رائے سے ملک کو بہتر سمت میں آگے بڑھایا جا سکے۔
آخر میں نائب وزیراعظم نے قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی، اراکینِ پارلیمنٹ اور تمام سیاسی جماعتوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس تاریخی آئینی ترمیم میں تعاون کیا۔













