قومی سلامتی کمیٹی (NSC) نے 2019 کے بالاکوٹ حملہ کے دوران اُس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اختیار کیے گئے ردِ عمل کے منصوبے کو مسترد نہیں کیا بلکہ اسے منظور کیا اور پاکستان ایئرفورس نے اسی منصوبے کے مطابق کارروائی کی یہ بات سوموار کو اجلاس کے 2 شرکا نے میڈیا کو بتائی۔
شرکاء کے مطابق، 26 فروری 2019 کی رات پیش آنے والے واقعے کے بعد جنرل باجوہ نے جی ایچ کیو میں اپنی کور ٹیم سے مشاورت کے بعد ایک محدود مگر مؤثر ردِ عمل کی تجویز قومی سلامتی کمیٹی میں رکھی، جسے اجلاس نے منظور کیا۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر حیات نے سخت مؤقف اختیار کیا اور مکمل فوجی متحرک کرنے اور اعلانِ جنگ کی تجویز دی، مگر یہ رائے منظور نہ ہوئی۔
مزید پڑھیں: بالاکوٹ ہائیڈرو پاور منصوبہ مرکزی تعمیراتی مرحلے میں داخل، دریائے کنہار کا رخ موڑ دیا گیا
26 فروری 2019 کو رات گئے، چیف آف جنرل اسٹاف (CGS) جنرل ندیم رضا نے جنرل باجوہ کو بالاکوٹ کے قریب بھارتی فضائی کارروائی کی اطلاع دی۔ ابتدائی معلومات کے مطابق نقصان معمولی تھا اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
بعد ازاں ایئرفورس کے سربراہ نے صورتحال پر تبادلۂ خیال کیا۔ جنرل باجوہ نے کہا کہ چونکہ کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا، معاملہ صبح قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں اٹھایا جائے۔

جی ایچ کیو میں مشاورت کے دوران ڈی جی ملٹری آپریشن نے متوازن ردِ عمل کی تجویز دی، متعدد ہدف دن کے وقت نشانہ بنانا تاکہ طاقت کا پیغام دیا جائے اور تناؤ بڑھنے سے بچا جائے۔ یہی منصوبہ بعد ازاں ’آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ‘ کے طور پر نافذ کیا گیا۔
قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں جنرل زبیر حیات نے سخت آپشنز پیش کیے، جبکہ جنرل باجوہ نے توازن برقرار رکھنے اور کسی بھی جلد بازی سے گریز کرنے کی تلقین کی نتیجتاً قومی سلامتی کمیٹی نے جی ایچ کیو کی تیار کردہ آپریشنل منصوبہ بندی کو منظور کیا، جسے بعد ازاں پاک فضائیہ نے عملی جامہ پہنایا۔
مزید پڑھیں: پلوامہ سے بالا کوٹ تک
27 فروری کو پاکستانی طیاروں نے 6 اہداف کو نشانہ بنایا، تاہم ان کو کھلے مقامات یا اوپن اسپیسز کہا گیا تاکہ اہداف کو قابو میں دکھا کر ٹارگٹ مارک کرنے کی صلاحیت کا پیغام دیا جا سکے اور شرحِ تناؤ کو محدود رکھا جائے۔
شرکا کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بالاکوٹ واقعے کے بعد فیصلے سازی کا عمل کسی فردِ واحد کے اشارے سے نہیں بلکہ اعلیٰ فوجی و سول قیادت کے درمیان مشاورت اور منظوری کے تحت ہوا۔ اختلافِ رائے موجود رہا، مگر جی ایچ کیو کی متوازن حکمتِ عملی کو قومی سلامتی کمیٹی کی منظوری حاصل ہوئی، اور بعد میں اسے پاک فضائیہ نے نافذ کیا۔














