اسرائیل اور حماس کے درمیان گزشتہ ماہ ہونے والے سیز فائر کے باوجود غزہ میں بجلی کی فراہمی اب تک بحال نہیں ہو سکی۔ 2 سال سے جاری جنگ اور محاصرے کے باعث غزہ کی بجلی کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
جنگ سے قبل غزہ کو تقریباً 180 میگاواٹ بجلی حاصل تھی، جس میں 120 میگاواٹ اسرائیل سے درآمد کی جاتی تھی جبکہ 60 میگاواٹ غزہ کے واحد پاور پلانٹ سے فراہم کی جاتی تھی۔ تاہم 7 اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیل نے غزہ پر مکمل محاصرہ نافذ کرتے ہوئے ایندھن کی ترسیل بند کر دی، جس کے نتیجے میں پاور پلانٹ چند دنوں میں بند ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیے: اسرائیل کی انسانیت دشمنی: غزہ میں بچوں کی ویکسینیشن کے لیے استعمال ہونے والے سامان کا داخلہ روک دیا
غزہ الیکٹرک کمپنی کے مطابق جنگ کے آغاز سے اب تک غزہ میں بجلی کی ترسیل مکمل طور پر معطل ہے اور کسی بھی علاقے کو قومی گرڈ سے بجلی فراہم نہیں کی جا رہی۔ کمپنی کے میڈیا ڈائریکٹر محمد ثابت کے مطابق جنگ کے دوران 80 فیصد سے زائد بجلی کی ترسیلی لائنیں اور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک تباہ ہو چکے ہیں، جبکہ ابتدائی مالی نقصان کا تخمینہ 728 ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔
مارچ 2025 میں اسرائیلی وزیر ایلی کوہن نے اعلان کیا تھا کہ حماس کے خلاف غزہ کو بجلی کی فروخت بند کی جا چکی ہے۔
دوسری جانب، اسرائیلی فوج کے ماتحت ادارے کوگاٹ (COGAT) نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل انسانی بنیادوں پر امدادی سامان، بشمول ایندھن، غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دے رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ میں پانی زہریلا، اسرائیلی حملوں نے ماحولیاتی بحران پیدا کر دیا
کوگاٹ کے مطابق ‘کیلا پاور لائن’ کے ذریعے 2 ڈی سیلینیشن پلانٹس کو بجلی فراہم کی جا رہی ہے، جبکہ جولائی 2024 میں جنوبی شہر خان یونس میں اقوام متحدہ کے زیرانتظام پانی صاف کرنے والے پلانٹ کو بھی بجلی سے جوڑا گیا ہے۔
توانائی کے ماہرین کے مطابق غزہ میں بجلی کی مکمل بحالی کے لیے بنیادی ڈھانچے کی ازسرِنو تعمیر درکار ہے، جو موجودہ حالات میں ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہوگا۔
2 سال بعد بھی غزہ کے بیشتر علاقے تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں، جہاں معمولاتِ زندگی شدید متاثر ہیں۔














