پاکستان نے صحت، تعلیم، زراعت سمیت مختلف شعبوں میں نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے دنیا کے 2 فیصد سب سے زیادہ حوالہ دیے جانے والے سائنسدانوں کی فہرست میں کئی محققین کو شامل کروا لیا ہے۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی سال 2024 کی فہرست کے مطابق پاکستان کی آغا خان یونیورسٹی، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST)، کومسٹس یونیورسٹی اسلام آباد، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی، عبدالولی خان یونیورسٹی مردان، قائداعظم یونیورسٹی، اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور سمیت دیگر یونیورسٹیوں کے متعدد اسکالرز اس فہرست میں شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان کا نیا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ 31 جولائی کو خلا میں بھیجا جائے گا، اسپارکو
فہرست میں پاکستان کے اساتذہ کے ساتھ سابق طلبہ بھی شامل ہیں۔ شامل محققین کی تحقیق ترقی پذیر دنیا میں صحت، تعلیم اور دیگر اہم شعبوں کی ترقی میں معاون ثابت ہوئی ہے۔
یہ سالانہ فہرست دنیا کے معتبر عالمی معیار پر مبنی سمجھی جاتی ہے۔ فہرست میں ڈاکٹر ذوالفقار اے بھٹہ، ڈاکٹر سلیم ایس ویرانی، ڈاکٹر رومینہ اقبال اور ڈاکٹر جے کمار داس سمیت کئی نام شامل ہیں۔
ڈاکٹر سلیم ایس ویرانی کا مؤقف
ڈاکٹر سلیم ایس ویرانی نے کہا کہ ہمیشہ جدید تحقیقی سہولیات میں سرمایہ کاری کی گئی ہے اور معیار و جدت کے لیے دنیا کے سرکردہ اداروں کے ساتھ تعاون کو فروغ دیا گیا ہے۔
ٹاپ 2 فیصد میں شمولیت کا معیار
یہ محققین یا تو کیریئر لائف ٹائم اثر (Career-Long Impact) یا ایک حالیہ سال کے اثر (Single Recent Year Impact) کی بنیاد پر دنیا کے ٹاپ 2 فیصد سائنسدانوں میں شامل کیے گئے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار اے بھٹہ
پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار اے بھٹہ آغا خان یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف ٹورنٹو (کینیڈا) سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کام عالمی صحت (Global Health) اور زچہ و بچہ کی صحت (Maternal & Child Health) پر مرکوز ہے۔
یہ بھی پڑھیں:بھارتی جعلی سائنسدان کا ایران کو ایٹمی منصوبہ فروخت کرنے کی کوشش کا انکشاف
انہوں نے زچہ و بچہ کی شرح اموات اور بیماریوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں اور جنوبی ایشیا میں بچوں کی غذائیت کی کمی اور اس کے حل پر رہنمائی فراہم کی ہے۔ ان کی تحقیق WHO اور UNICEF سمیت دیگر عالمی اداروں کی پالیسیوں میں استعمال ہوتی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر سلیم ایس ویرانی اور ڈاکٹر رومینہ اقبال
پروفیسر ڈاکٹر سلیم ایس ویرانی ماہر امراض قلب ہیں اور ان کا کام دل کی بیماریوں کی روک تھام، خاص طور پر کولیسٹرول اور لپڈ مینجمنٹ پر مرکوز ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر رومینہ اقبال آغا خان یونیورسٹی سے تعلق رکھتی ہیں اور انہوں نے دل کی بیماریوں، ذیابیطس اور دیگر غیر متعدی بیماریوں پر جنوبی ایشیا میں خوراک اور جسمانی سرگرمی کے اثرات کا مطالعہ کیا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر جے کمار داس کا کام WHO اور دیگر عالمی تنظیموں کے لیے ماں اور بچے کی دیکھ بھال کی سفارشات کو تقویت دیتا ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں پاکستانی تحقیق
یہ فہرست صحت اور تعلیم تک محدود نہیں بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبے بھی شامل ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) کے 43 محققین، یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد کے متعدد محققین، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے 43 سائنسدان، پنجاب یونیورسٹی کے 42 سائنسدان، اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور کے 41 سائنسدان اور قائداعظم یونیورسٹی کے 40 سائنسدان اس فہرست میں شامل ہیں۔
آغا خان اور دیگر یونیورسٹیوں کے محققین
آغا خان یونیورسٹی کے 25 سے زائد سائنسدان، کومسٹس یونیورسٹی اسلام آباد کے متعدد محققین، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے 22 سائنسدان اور عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے 20 سائنسدان بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
تحقیقی معیار اور علاقائی شمولیت
یہ درجہ بندی ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان میں زراعت، انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی میں تحقیق عالمی معیار کی ہے، جبکہ صحت اور میڈیکل سائنسز میں محققین کی شمولیت ترقی پذیر دنیا کے لیے اہم اثاثہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سائنسدانوں کا 60 سالوں سے زمین کے ساتھ محوِ سفر نیا ‘چاند’ دریافت کرنے کا دعویٰ، ناسا کی تصدیق
اس فہرست سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ تحقیقی ایکسیلنس کسی ایک شہر یا صوبے تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے مختلف جامعات میں پھیلی ہوئی ہے۔














