اچھا ہوا کہ سری لنکن کرکٹ بورڈ نے حقیقت کو جان لیا اور اپنے کھلاڑیوں کو دورہ پاکستان جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ یہ حقیقت کیا ہے، اس کے بارے میں بھارت کے اردگرد بسنے والی تمام اقوام بخوبی آگہی رکھتی ہیں۔ سری لنکن قوم سے زیادہ کون اس حقیقت سے واقف ہوگا جس کے ہاں برسوں نہیں عشروں تک تامل باغیوں نے غدر مچائے رکھا، دہشتگردی سے سری لنکا کے چہرے کو خون آلود کیا۔
سری لنکا جیسے چھوٹے لیکن مضبوط ملک میں یہ خونی کہانی عشروں تک جاری رہی۔ ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے، ایک اندازے کے مطابق مجموعی تعدد ایک لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زخمیوں کی تعداد کتنی ہوگی، اس دہشتگردی نے کتنے لوگوں کو معذور بنایا ہوگا، ملک کی معیشت سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی کو کس قدر متاثر کیا ہوگا۔
سری لنکن قوم نہیں بھولی کہ دارالحکومت کولمبو نے کتنے زیادہ خودکش حملے سہے، سرکاری عمارتوں، ہوائی اڈے اور عوامی مقامات کو نشانہ بنایا گیا، صرف ایک کولمبو میں سیکڑوں عام شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔ باقی شہروں اور مقامات کا ذکر الگ ہے۔
اس وقت آزاد تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ سری لنکا کو اس قدر بڑے دہشتگردانہ حملوں کا سامنا ہوا جس کی نظیر گزشتہ 100 برسوں میں دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ کئی ایسے حملے تھے جن میں سے ہر ایک میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
سری لنکن قوم انورادھاپور کا قتل عام نہیں بھولی ہوگی جس میں 146 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ سری لنکن قوم آلوتھ اویا کا قتل عام بھی نہیں بھولی ہوگی جس میں 127 عام شہری ہلاک ہوئے تھے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ کولمبو کے مرکزی بس اڈے پر ہونے والے بم دھماکے کو بھی نہیں بھولی ہوگی جس میں 80 عام شہری مارے گئے۔ 3 اگست 1990 کو کاٹانکودے کی مساجد میں ہونے والے حملوں کو کون بھول سکتا ہے جن میں 147 مسلمان ہلاک ہوئے تھے۔ اور پھر پلییاگوڈیلا کا قتل عام جس میں 285 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ڈیگم پاتھا ہا میں سری لنکن نیوی کو بارود سے بھرے ایک ٹرک سوار نے نشانہ بنایا جس میں 112 اہلکار ہلاک ہوئے۔
آنے والے برسوں میں ساری دنیا یہ حقیقت جان چکی تھی کہ تامل دہشتگردوں کے پیچھے ہمسائیہ ملک بھارت تھا۔ ایک طفل مکتب بھی تحقیق کرنا چاہے تو اسے پتہ چل جائے گا کہ بھارت نے کتنا گولہ و بارود تامل دہشتگردوں کو فراہم کیا۔ یہ بھارت ہی تھا جس نے 80 کی دہائی میں تامل علیحدگی پسندوں خاص طور پر ایل ٹی ٹی ای کو خفیہ طور پر گوریلا لڑائی کی تربیت فراہم کی تھی۔
بھارت کی مدد سے ایل ٹی ٹی ای نامی دہشتگرد گروہ مضبوط ہوا، وہ ایک بڑا جنگجو گروہ بن گیا۔ اس نے خودکش حملوں کا سلسلہ شروع کیا، اس دوران اس نے مزید عسکری گروہ بھی تیار کیے۔ عام شہریوں کو بھی نشانہ بنایا اور سیکیورٹی فورسز کو بھی۔
پھر ایک وقت آیا کہ ان دہشتگردوں نے اپنے سرپرست بھارت کو بھی بوجوہ نشانے پر رکھ لیا۔ حتیٰ کہ انڈین وزیراعظم راجیو گاندھی کو ایک خودکش دھماکے میں ہلاک کردیا۔ اس کے بعد بھارتیوں نے اپنی چھاتی پیٹنا شروع کردی، تب انہیں احساس ہوا کہ وہ کیا کربیٹھے۔
بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہمسائیہ ممالک میں مسلسل آگ اور خون کا کھیل کھیلتے رہنا چاہتا ہے، انہیں کمزور کرنا چاہتا ہے اور اس انداز میں اپنا اکھنڈ بھارت کا ایجنڈا آگے بڑھانا چاہتا ہے۔
ہمیشہ سے پاکستان اور سری لنکا کے مابین بہترین تعلقات قائم ہیں۔ انڈیا کی انتہا پسند اسٹیبلشمنٹ کو یہ تعلقات ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ 2009 میں لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملہ کروا کے ایک طرف دونوں ملکوں کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی گئی، دوسری طرف پاکستان میں غیرملکی ٹیموں کی آمد کا راستہ روکا گیا۔
اس کے بعد پاکستانی حکام نے بے پناہ محنت کرکے بین الاقوامی ٹیموں کے لیے پاکستان کی طرف راستے ہموار کیے۔ کمینہ صفت دشمن اس پر خوب آتش زیرپا ہوا۔ اور پھر اسلام آباد کچہری میں دہشتگردی کا واقعہ ہوگیا۔
اب یہ کسی سے مخفی نہیں رہا کہ اس واقعے کے پیچھے کون ہے۔ اور کون ایسے واقعات سے کیا کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ سچ کہتے ہیں کہ خدا کسی کو کمینہ دشمن نہ دے۔
سری لنکا اور اس کے کرکٹ بورڈ کا شکریہ کہ انہوں نے کمینہ صفت دشمن کی حرکتوں اور اس کے منصوبوں کو اچھی طرح جان لیا اور اپنے کھلاڑیوں کو دورہ جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ یقیناً وہ اس حوالے سے بھی تحقیق کریں گے کہ ان کے کھلاڑیوں کو کس نے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی!
دنیا جان چکی ہے کہ کون سا ملک خطے میں امن کا خواہاں ہے، اور کون سا ملک ہمیشہ آگ لگانے والا کردار ادا کرتا ہے۔ ہم دعاگو ہیں کہ سری لنکا اور پاکستان جیسے امن پسند ممالک ہمیشہ متحد رہیں اور دہشتگردی کے اس کھیل کو انجام تک پہنچا دیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













