قومی احتساب بیورو (نیب) نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو 22 مئی کو حاضری کے لیے نوٹس جاری کر دیا ہے۔
عمران خان نے نیب کے نوٹس کا تحریری جواب دیتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ 22 مئی کو نیب تحقیقات کا حصہ نہیں بن سکتا۔
b08aa837-664b-491b-bc85-994a123a8c0a by A. Khaliq Butt on Scribd
چیئرمین پی ٹی آئی نے 23 مئی کو نیب تحقیقات کا حصہ بننے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔
دوسری جانب چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے نیب سے انکوائری رپورٹ کی نقل بھجوانے یا وکیل کو فوری فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کردیا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل 9 مئی کو عمران خان کو القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں گرفتار کیا گیا تھا اور احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر ان کا 8 روزہ جسمانی ریمانڈ بھی منظور ہو گیا تھا مگر سپریم کورٹ آف پاکستان نے مداخلت کرتے ہوئے عمران خان کو رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں سابق وزیر اعظم عمران خان نیب کے القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد سے گرفتار
القادر ٹرسٹ کیا ہے؟
نیب کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے موضع برکالا، تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم میں واقع 458کنال، 4 مرلے اور 58 مربع فٹ زمین عطیہ کی ہے جس کے بدلے میں مبیّنہ طور پر عمران خان نے ملک ریاض کو 50 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا تھا۔
گزشتہ سال اکتوبر 2022 میں نیب نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کردی تھی۔ نیب دستاویزات کے مطابق 3 دسمبر 2019 کو عمران خان کی زیرِ صدارت کابینہ اجلاس میں ملک ریاض کو برطانیہ سے ملنے والی 50 ارب روپے کی رقم بالواسطہ طور پر واپس منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔
یہ رقم برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے منی لانڈرنگ کے الزامات پر ضبط کی گئی تھی۔
سابق وزیرِاعظم عمران خان نے 26 دسمبر 2019 کو ریئل اسٹیٹ ڈیویلپر کے حوالے سے کابینہ کے فیصلے کے چند ہفتوں کے اندر القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کے لیے ٹرسٹ رجسٹر کیا تھا جو بعد میں یونیورسٹی کے لیے ڈونر بن گیا۔ نیب کے مطابق ٹرسٹ کی رجسٹریشن سے صرف 3 ہفتے پہلے عمران خان کی کابینہ نے نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے پاکستان کو ملنے والی رقم واپس ملک ریاض کو بالواسطہ طور پر واپس کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں القادر ٹرسٹ کیس: شہزاد اکبر کو پاکستان لانے کے لیے نیب کا انٹرپول سے رابطے کا فیصلہ
نیب راولپنڈی نے اس معاملے میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا نوٹس لیتے ہوئے نیب آرڈیننس 1999 کے تحت پرویز خٹک، فواد چوہدری اور شیخ رشید سمیت 3 دسمبر 2019 کی کابینہ اجلاس میں موجود تمام ارکان کو علیحدہ علیحدہ تاریخوں پر طلب کیا تھا۔
نوٹس میں کہا گیا تھا کہ ’اختیارات کے ناجائز استعمال، مالی فائدہ اور مجرمانہ بدیانتی کے الزامات کی انکوائری کے دوران معلوم ہوا ہے کہ بطور کابینہ ممبر آپ نے 3 دسمبر 2019 کو وزیراعظم آفس میں ہونے والے کابینہ اجلاس میں شرکت کی جس میں آئٹم نمبر 2 پر فیصلہ کیا۔‘
نوٹس کے مطابق مذکورہ کابینہ اجلاس میں آئٹم نمبر 2 کا عنوان تھا ’احمد علی ریاض، ان کے خاندان اور میسرز بحریہ ٹاؤن کے اکاؤنٹس کا انجماد اور پاکستان میں فنڈز کی منتقلی کا حکم نامہ۔‘
اس معاملے پر ایجنڈا آئٹم وزیرِاعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ (شہزاد اکبر) نے پیش کیا اور بریفنگ دی اور کابینہ سیکرٹری کو ہدایت کی کہ ریکارڈ کو سیل کردیا جائے۔ نوٹس میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے بیٹے احمد علی ریاض بھی طلب کیا گیا تھا۔