سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے استعفیٰ دے دیا۔ دونوں ججز نے اپنے استعفے صدر مملکت کو بھجوا دیے ہیں۔
دونوں ججز کا استعفیٰ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب 27ویں آئینی ترمیم کی دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد صدر مملکت نے بھی اس پر دستخط کردیے ہیں۔
مزید پڑھیں: صدر مملکت نے 27ویں آئینی ترمیم پر دستخط کر دیے، بل آئین کا حصہ بن گیا
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت کو بھجواتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ 27ویں ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ پر کاری ضرب لگائی گئی ہے، اور یہ آئین پر حملہ ہے۔
انہوں نے کہاکہ آئینی ترمیم سے انصاف عام آدمی سے دور ہوگیا اور کمزور طاقت کے سامنے بے بس ہوگیا، اس ترمیم نے عدلیہ کو حکومت کے ماتحت کردیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے صدر مملکت کو بھجوائے گئے استعفے میں احمد فراز کے اشعار بھی شامل کیے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ کے استعفے کا اردو متن۔۔
احمد فراز کے اشعار بھی استعفے میں شامل۔ pic.twitter.com/w1zvuIIJtB— Waseem Abbasi (@Wabbasi007) November 13, 2025
انہوں نے لکھا کہ ملک کی واحد اعلیٰ ترین عدالت کو منقسم کرکے اور عدلیہ کی آزادی کو پامال کرکے ملک کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مؤقف اختیار کیاکہ تاریخ گواہ ہے آئینی نظم و نسق کی ہیئت میں اس طرح کی تبدیلیاں زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوتیں، اور اصلاح ایک یقینی امر ہے مگر اس کے چھوڑے ہوئے زخم کے نشانات مندمل نہیں ہو سکتے۔
27ویں ترمیم نے اس آئین کو ختم کردیا ہے، جسٹس اطہر من اللہ
سپریم کورٹ کے دوسرے مستعفی ہونے والے جج جسٹس اطہر من اللہ نے استعفے میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ 27ویں ترمیم نے اس آئین کو ختم کردیا ہے جس کا انہوں نے حلف اٹھایا تھا۔
انہوں نے لکھا کہ آئین اب محض ایک سایہ رہ گیا ہے اور وہ خاموشی کے ذریعے اپنے حلف سے غداری نہیں کر سکتے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا استعفی
جس آئین کے تحفظ کا میں نے حلف اٹھایا تھا، وہ اب اپنی اصل صورت میں باقی نہیں رہا۔ میں جتنی بھی خود کو تسلی دینے کی کوشش کروں، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اب جو بنیادیں رکھی جا رہی ہیں، وہ آئین کی قبر پر رکھی جا رہی ہیں۔ pic.twitter.com/eh83oT2BRs— Hayan Khan (@HayanAhmedKhan2) November 13, 2025
انہوں نے کہاکہ آئین جس کے تحفظ کا میں نے حلف لیا تھا وہ اب باقی نہیں رہا۔ میں خود کو اس دھوکے میں نہیں رکھ سکتا کہ نئی بنیادیں اسی آئین پر قائم ہیں، کیونکہ جو کچھ باقی ہے، وہ محض اس کا سایہ ہے، جس میں نہ روح باقی ہے نہ عوام کی آواز۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے استعفیٰ میں لکھا کہ 11 سال قبل انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کے طور پر حلف لیا، 4 سال بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے جج کے طور پر خدمات انجام دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے تمام ادوار میں انہوں نے ایک ہی وعدہ کیا تھا کہ وہ آئینِ پاکستان کی حفاظت کریں گے، نہ کہ کسی ترمیم شدہ مفہوم کی۔
’آئینی ترمیم کے حوالے سے میرے خدشات درست ثابت ہوئے‘
انہوں نے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ نکات پر انہیں شدید تحفظات تھے اور انہوں نے اس حوالے سے چیف جسٹس پاکستان کو خط بھی لکھا تھا۔ تاہم ان کے خدشات درست ثابت ہوئے اور آئینی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا۔
انہوں نے کہاکہ ججوں کے پہنے ہوئے یہ عبا و جبہ محض علامت نہیں بلکہ ایک عظیم امانت کی یاد دہانی ہیں، مگر تاریخ میں اکثر یہ خاموشی اور مصلحت کی علامت بنے رہے۔
اپنے استعفیٰ کے اختتام پر جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ امید ہے کہ آنے والی نسلیں ان عباؤں کو غداری نہیں، بلکہ دیانت کی علامت سمجھیں گی۔ اسی امید کے ساتھ میں یہ جبہ ہمیشہ کے لیے اتار رہا ہوں۔
واضح رہے کہ حکومت نے آئینی ترمیم کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو آئینی مقدمات سنے گی۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ چونکہ سپریم کورٹ کا سارا وقت آئینی مقدمات سننے میں صرف ہو جاتا تھا، جس کے باعث روٹین کے مقدمات پر اثر پڑتا تھا، اس لیے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم پر مشاورت: چیف جسٹس نے فل کورٹ اجلاس طلب کرلیا
اس سے قبل جسٹس منصور علی شاہ نے 27 ویں آئینی ترمیم پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور اس سلسلے میں چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس یحییٰ آفریدی کو 2 خطوط بھی ارسال کیے تھے۔














