ایک روز خیال گزرا، کیوں نہ انسانوں کے انسانوں پر جبر کے بارے میں انسانوں ہی کے خیالات پڑھے جائیں۔ پہلی کوشش میں مجھے 25انسانوں کے اقوال پڑھنے کو ملے۔
ایک قول جنرل پرویز مشرف کا بھی نظر آیا، وہی جنرل پرویز جو خود جبر کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ایوان اقتدار میں داخل ہوئے تھے، قریباً 10برس جبر کے بل بوتے پرحکمران رہے حتیٰ کہ ان کے اپنے ہی ساتھی جرنیلوں پکار اٹھے’چیف صاب! بس!! بہت ہوگئی، اب تو ہم معاشرے میں وردی پہن کر گھوم پھر نہیں سکتے‘۔
جنرل پرویز مشرف نے فرمایا’ذہنیت کو جبر اور قوت سے نہیں بدلا جاسکتا، کوئی خیال کسی فرد پر زبردستی نہیں تھونپا جاسکتا‘۔
ایک قول موہن داس کرم چند گاندھی کا بھی ملا، ان کا کہنا تھا:’جبر کا حتمی نتیجہ افراتفری کی صورت ہی نکلتا‘۔ یہ وہی گاندھی جی ہیں جن کا ملک بھارت آج بھی سوا کروڑ کشمیریوں کو جبراً اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ممکن ہے کہ بھارت میں کوئی بھارتیہ جنتا پارٹی کا اردو خواں یہ کالم پڑھتے ہوئے بے چینی محسوس کرے۔ گزارش ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں رائے عامہ کے ایک آزادانہ جائزہ کا اہتمام کرلیں، چاہے اس کے نتائج بی جے پی کے بند کمرہ اجلاس ہی میں پڑھ لیں لیکن 75سالہ جبر کے نتائج ضرور معلوم کرلیں۔
انسانوں کے انسانوں پر جبر کے بارے میں انسانوں کے خیالات دیکھنے کا خیال تب آیا جب معروف عرب ٹیلی ویژن چینل’الجزیرہ‘ کا ایک چھوٹا سا ویڈیو کلپ نظر سے گزرا جو ایک فلسطینی ’یعقوب عودہ‘ سے متعلق تھا۔ وہ گزشتہ 75برس سے اس گھر کو دیکھنے جاتا ہے جہاں وہ پیدا ہوا تھا، اور پھر آٹھ سال کی عمر میں اسے اور اس کے والدین کو نکال باہر کیا گیا تھا۔ یہ ویڈیو کلپ اپنے آبائی گھر سے بے پناہ محبت کا شاندار اظہار ہے۔ بدترین جبر بھی آبائی گھر سے اس کی محبت کو ماند نہ کرسکا۔
75برس قبل ’نکبہ‘ ہوا تھا۔ یہ ’نکبہ‘ کیا تھا؟ اس کا مطلب کوئی ان ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں سے پوچھے جو اس کا شکار ہوئے تھے۔ یہ فلسطینی، نسل در نسل اپنے گھروں میں زندگی بسر کر رہے تھے کہ برطانوی استعمار کی بھرپور مدد سے اسرائیلی ملیشیا نے فلسطینیوں کو گھروں سے نکال باہر کیا اور خود ان گھروں پر قابض ہوگئے۔
عین ایک ہفتہ قبل 14مئی کو فلسطینیوں کا یہ دکھ تازہ ہوا۔ وہ ہر سال ’یوم نکبہ‘ پر اپنے گھروں، اپنے آزاد وطن کو یاد کرتے ہیں۔ انہیں قابض اسرائیلیوں کا جبر یاد آتا ہے اور ان کی پشت پناہی کرنے والے بھی، تب ان کے چہروں کے تاثرات بدل جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں
14مئی1948ء کو فلسطینی علاقوں سے برطانوی افواج نے انخلا کے ساتھ ہی اسرائیلی حکومت قائم کرنے کا اعلان کردیا۔یوں خطے کے اصل مالک فلسطینی مہاجر بن گئے۔ تب سے اب تک برطانیہ اور امریکا کو اسرائیل کی حفاظت کی فکر سب سے بڑھ کر ہے۔ انہوں نے فلسطینیوں کو مجبور کیا کہ وہ اسرائیل کو ایک ملک کے طور پر تسلیم کریں اور خود اس کے رحم و کرم پر رہیں۔
حیرت ہے کہ یہ سارا جبر توڑنے کے بعد بھی امریکا اور برطانیہ ایسے ممالک دنیا میں انسانی حقوق کا پرچم لہراتے ہیں، دیگر اقوام کو امن و سلامتی کی نصیحتیں کرتے ہیں۔ اور اہم بات یہ ہے کہ اس سب کچھ کے معانی اور مفاہیم بھی خود ہی طے کرتے ہیں۔
یہ جبر فلسطینیوں کو کبھی زیر نہیں کرسکا۔ ان کے دلوں میں وطن سے محبت کی شمع بھرپور انداز میں روشن ہے، وہ اس یقین سے مالا مال ہیں کہ ایک روز ان کا وطن آزاد ہوگا۔
میں بعض اوقات فلسطینیوں کے نغمے سنتا ہوں، ان کے رقص دیکھتا ہوں۔ ہر گیت کا ہر لفظ، اور رقص کی ہر ادا بے پناہ جذبہ حریت کی مظہر ہوتی ہے۔ دلال ابو آمنہ، صفاء سلطان جیسی گلوکارائیں اور محمد عساف، زین دقۃ، امیر دندن جیسے گلوکار اور تراب بلادی جیسے گروپ اپنے وطن کے گیت اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ وہ ایک لمحہ کے لیے بھی محکوم محسوس نہیں ہوتے! اپنے گیتوں سے، اپنے رقص سے قابضین کو ایک ہی پیغام دیتے ہیں کہ وہ اول و آخر آزاد فلسطینی ہیں۔
آئیے! اب یعقوب عودہ کا قصہ پھر بیان کرتے ہیں۔ وہ آج بھی باقاعدگی سے اپنے آبائی گھر کو دیکھنے جاتا ہے۔ گھر بالکل پرانی حالت ہی میں قائم و دائم ہے۔ جیسے ہی اس کی نظر گھر پر پڑتی ہے، وہ دور سے پکار اٹھتا ہے:’صباح الخیر اے ہمارے گھر!‘ اور بار بار پکارتا ہے۔ پھر اسے وہ وقت یاد آتا ہے، جب اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کی ایک پوری نسل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے تمام ممکنہ حربے اختیار کیے تھے۔
یعقوب اپنے آبائی گھر کے سامنے کھڑا تھا کہ اسے دو اسرائیلی ملے، یعقوب نے ان کے سامنے بھی اپنے آبائی گھر کی محبت سے معمور دل کھول کر رکھ دیا۔ انہیں بتایا کہ وہ اسی گھر میں پیدا ہوا۔ایک اسرائیلی نے یعقوب کو بتایا کہ اس کے والدین ہولوکاسٹ سے بچ کر پولینڈ سے یہاں آبسے تھے۔ یعقوب نے اسے یاد دلایا کہ آپ کے والدین آئے تھے اور مجھے نکال کر یہاں رہنے لگے تھے۔ اس نے یاد دلایا کہ اسرائیلی ملیشیا نے کس طرح ہمارے گھروں میں بارود نصب کیا تھا کہ ہم ڈر کر اپنے گھروں سے نکل جائیں۔ تب مرد فلسطینیوں نے بیویوں اور بچوں کو نزدیکی غاروں کی طرف بھیج دیا۔
یعقوب نے بتایا کہ وہ اس وقت آٹھ برس کا تھا جب اسے ننگے پاؤں گاؤں سے باہر بھاگنا پڑا۔ اس کے گھر والوں کے پاس صرف ایک گھنٹہ تھا۔ انہوں نے ایک درخت کے نیچے پناہ لی۔ وہ ایک گھنٹہ پہلے بادشاہ تھے لیکن ایک گھنٹہ بعد مہاجر۔ یعقوب اب سات کلومیٹر دور مقیم ہے۔ باقاعدگی سے اپنا آبائی گھر دیکھنے آتا ہے۔ بھاری پتھروں سے تعمیرشدہ اس کا آبائی گھر کانٹوں بھرے تھوہر کے پودوں کے درمیان خستہ حال کھڑا ہے۔
اسرائیل نے فلسطینی مہاجروں سے واپسی کا حق چھین رکھا ہے۔ تاہم یعقوب عودہ کے دل میں امید کی شمع اب بھی روشن ہے۔ وہ کہتا ہے:’جہاں میں نے پہلی بار آنکھ کھولی تھی، جہاں میں نے پہلا سانس لیا تھا، میں اس گھر کو بھول نہیں سکتا۔ میں یہاں ضرور واپس آؤں گا‘۔
مغربی رہنماؤں کے اقوال جبر کے خلاف ہوتے ہیں لیکن اعمال جبر کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور پھر غور و فکر کرتے ہیں کہ دنیا میں ان کے خلاف نفرت کیوں پروان چڑھتی ہے؟ اسی دو عملی نے دنیا کو مسائل سے بھردیا ہے۔
سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن نے ایک روز جبر کے نقصانات اور آزادی کے فوائد گنواتے ہوئے کہا تھا:’جبر آخرکار انسان کو اپنے شکنجے میں لے لیتا ہے جبکہ آزادی اسے مسحور کرتی ہے‘۔
یہ وہی رونالڈ ریگن ہیں جن کا ملک1948ء سے آج تک آنکھیں بند کرکے جبر کی بنیاد پر قائم اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔ امریکا نے 2018ء میں اسرائیل کی70ویں سالگرہ پر ایک تحفہ یہ دیا تھا کہ اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس میں منتقل کرلیا۔ اس فیصلے پر فلسطینیوں نے احتجاج کیا، اسرائیلی سیکیورٹی فورسز نے 3000 سے زائد فلسطینیوں کو گولیوں سے چھلنی کردیا لیکن امریکا نے ایک آہ بھی نہ بھری۔
اس وقت اسرائیلی معاشرہ احساس برتری سے مارے لوگوں سے بھرچکا ہے، جو عربوں سے شدید نفرت کرتے ہیں جبکہ دنیا کی باقی اقوام کو تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ خود اسرائیلی اخبارات میں یہ جائزے شائع ہوتے ہیں مثلاً دو برس قبل معروف اسرائیلی اخبار ’ہاریتز‘ نے بتایا کہ 60فیصد اسرائیلی نوجوان عربوں کے خلاف شدید جذبات رکھتے ہیں۔
جبر ایک فرد کا دوسرے فرد پر ہو، یا ایک گروہ کا دوسرے گروہ پر، اسے بہرحال ایک نہ ایک دن ختم ہونا ہی ہوتا ہے۔ 75برس بعد بھی اسرائیل ہر لمحہ معرض خطر میں ہے تو یہ ثبوت ہے کہ جبر کسی جابر کو دوام نہیں بخش سکتا، اسے ڈر، ڈر کے ہی جینا پڑتا ہے حتیٰ کہ ایک روز جبر کی عمارت دھڑام سے نیچے آن گرتی ہے۔ اس سارے قصے میں ہم پاکستانیوں کے لیے بھی سبق موجود ہے۔ یہاں عوام کی مرضی و منشا کو75برسوں میں بوٹوں تلے بار بار مسلا اور کچلا گیا۔ نتیجہ آج افراتفری کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
ریاست عوام کے لیے قائم کی جاتی ہے، طاقت کا سرچشمہ عوام ہی ہوتے ہیں، انہی کی مرضی و منشا چلتی ہے، لیکن ہم بھی دوعملی کا شکار ہیں۔ جنرل مشرف کا مذکورہ بالا روشن قول دیکھیے اور پھر ان کا، ان کے پیش روؤں اور جانشینوں کا عمل دیکھیے۔