9 مئی کے ہنگامے سے اٹھنے والے شور میں ایک نہایت ہی اہم واقعہ ہو گزرا ہے، ہمارا ہنگامہ پسند میڈیا توقع کے عین مطابق جس پر توجہ نہیں دے سکا۔ یہ واقعہ ہے پاکستان اور ایران کے درمیان ایک ایسے معاہدے پر عمل درآمد کا جس کے بعد تاریخ ایک نئی جست لے چکی۔ پاک چین اقتصادی راہداری کی اہمیت کو اجاگر کرنے والے مقبول عام کلیشے کے مطابق یوں بھی کہہ لیں تو کوئی ہرج نہیں کہ گیم چینجر ہو گیا ہے۔
یہ گیم چینجر دونوں ملکوں بلکہ خطے کے اقتصادی، سیاسی اور دفاعی استحکام کے ضمن میں تو ایک سنگ میل ہے ہی، خود پاکستان کے داخلی استحکام کے علاوہ سیاست کو نئی سمت دینے پر بھی قادر ہے۔ ریاستی اور علاقائی منظر نامے کی تشکیل نو کی صلاحیت رکھنے والے اس واقعے پر تفصیل سے بات ہوئی چاہیے لیکن اس سے پہلے اس سفر کی تھوڑی سی تفصیل ضروری محسوس ہوتی ہے جس سے گزر کر ہم یہاں پہنچے ہیں۔
یہ مارچ 2016ء کے کسی دن کی بات ہے، ایران کے صدر جناب حسن روحانی ہمارے ایوان صدر میں تھے۔ قواعد تشریفات ( پروٹوکول) کے مطابق تمام انتظامات مکمل تھے۔ مہمانان گرامی کے آنے سے قبل مہمان اور میزبان وفود حفظ مراتب کے مطابق اپنی اپنی نشستوں پر فروکش تھے لیکن معمول کے برعکس محفل میں تھوڑی سنسنی تھی۔ میری نشست کے عین برابر وزارت خارجہ کی اُن ڈائریکٹر جنرل صاحبہ کی نشست تھی جن کے احاطہ کار ایران میں آتا ہے یعنی دفتر ( ڈیسک)مشرق وسطیٰ۔
مَیں نے ان سے سوال کیا کہ عین اس دورے کے موقع پر کلبوشن کی گرفتاری کا معاملہ کیا ہے؟ وہ خاموش رہیں۔ ان کی خاموشی پیشہ دارانہ ہرگز نہ تھی۔ باہمی محفلوں میں وہ ہمیشہ بے تکلف رہتیں، شگفتہ جملہ کہتیں اور اچھے جملے کی داد دل کھول کر دیا کرتیں۔ ان کی خاموشی نے بہت کچھ کہہ دیا تھا لہٰذا دیگر حاضرین محفل کی طرح ان سطور کا لکھنے والا بھی مہمان مکرم کے انتظار میں اپنی نشست پر سمٹ کر بیٹھ رہا، ہاں البتہ جاتے ہوئے ایک بات اس خاتون نے ضرور کہی کہ بھائی، تمھیں کیا بتاؤں، ہمارے اپنے ہاتھوں کے توتے اڑے ہوئے ہیں۔
ویسے تو دونوں ملکوں کے صدور کی یہ ملاقات بھی بڑی دل چسپ اور تاریخی تھی۔ دل چسپ یوں کہ بعض دیگر ملکوں ( علاوہ ترکیہ) کے سربراہانِ مملکت کے برعکس مہمان معظم کا طرز عمل نہایت بے تکلفانہ تھا۔ بات بات پر انہوں اقبال علیہ رحمہ کے فارسی اشعار کا سہارا لیا اور لکھی ہوئی باتوں سے ہٹ کر بے تکلف گفتگو کی۔ ہماری ترجمہ کار خاتون جو ایک مقامی یونیورسٹی کی شاید ایسوسی ایٹ پروفیسر تھیں، اپنی بساط کے مطابق ترجمہ کرتی گئیں۔ دوران گفتگو ایک بار ایرانی صدر نے کچھ ایسا جملہ کہا:
‘ ہم سفارتی رشتے میں مزید گرم جوشی پیدا کریں گے،
ہم اپنی تجارت میں بتدریج فلاں گنا اضافہ کریں گے۔
ہم دو طرفہ بنیادوں پر ثقافتی سرگرمیوں کو مزید فروغ دیں گے۔
ہم دونوں ملکوں کے بینکوں کے درمیان تعاون کے نئے در وا کریں گے۔
تعلیم کے فروغ کے لیے دو طرفہ بنیادوں پر خصوصی انتظامات کریں گے‘۔
اس جملے میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے فروغ کے ضمن میں بہت سے مزید نکات کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے کیوں کہ ایرانی صدر باہمی تعاون کا ایک وسیع پیکج لے کر یہاں تشریف لائے تھے۔ ہماری ترجمہ کار نے اس جملے کا ترجمہ کیا:
’ہم سفارتی رشتے میں مزید گرم جوشی، تجارت میں اضافہ، ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ، بینکوں کے درمیان تعاون اور تعلیم میں فروغ کے خصوصی انتظامات کریں گے‘۔
ترجمہ کار خاتون مہمان صدر کے منٹ بھر طویل جملے کا ترجمہ ایک ثانیے میں کرنے کے بعد خاموش ہو گئیں تو معزز مہمان نے پلٹ کر ان کی طرف دیکھا اور کچھ اس قسم کا جملہ کہا:
‘چه کاری انجام می شود؟’
یعنی کیا بات مکمل ہو گئی؟
ترجمہ کار نے فرمایا کہ جی بالکل۔ مہمان صدر نے اپنی بات دہرائی تو وہ کہنے لگیں کہ وہ بات جس کے ہر نکتے کے لیے آپ نے الگ الگ جملہ بنانے کی زحمت کی، میں نے اسے ایک ہی جملے میں نمٹا دیا ہے۔ معزز مہمان یہ سن کر زیر لب مسکرا دیے تو ترجمہ کار نے قہقہہ لگانا ضروری سمجھا۔ ان کا کھنکتا ہوا قہقہہ پورے ہال میں گونج اٹھا۔ یوں انتہائی اعلیٰ سطح کی یہ ملاقات ترجمہ کار خاتون کے کھلنڈرے پن کی وجہ سے ملاقات یاد گار بن گئی۔
ملاقات کے بعد میں نے برادرم ڈاکٹر نوید الٰہی کے دفتر میں ان سے سوال کیا کہ اتنا بلند قہقہہ لگانے کی ضرورت آپ نے کیوں محسوس کی؟
فرمایا:
‘ ہنسی آئی، میں ہنس دی، اور کیا؟’
اتنی اعلیٰ سطح پر جس پیشہ دارانہ سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے بارے میں اس درجے سنجیدگی کی اس نادر مثال پر سوائے انہیں داد دینے کے اور کیا کیا جا سکتا تھا۔ لہذا یہ ‘فریضہ ‘ نوید اور میں نے دل کھول کر ادا کیا اور پروفیسر صاحبہ بھی جتنی دیر وہاں رہیں، اپنے کارنامے پر ناز کرتی رہیں۔
دونوں برادر ملکوں کے صدور کے درمیان یہ ملاقات صرف ان پروفیسر صاحبہ کی بے تکلفی کی وجہ سے یادگار نہیں بنی، بلکہ ایوان صدر میں کسی دوسرے ادارے سے ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے ایک افسر اعلیٰ کی بے چینی نے بھی اسے یادگار بنایا۔
پروٹوکول کے مطابق ان کی سطح کے افسر کی نشست صدر کی پچھلی نشستوں میں دائیں بائیں ہوتی ہے اور یہاں جگہ نہ ہو تو سامنے کی دو رویہ نشستوں میں حفظ مراتب کے مطابق کسی جگہ ہوتی ہے۔
میری یاداشت کے مطابق اس سطح کی ملاقات میں یہ پہلی بار تھا کہ ان صاحب نے اپنی جگہ پر بیٹھنا مناسب نہ سمجھا۔ دوران ملاقات وہ مسلسل دائیں بائیں گھومتے رہے۔ پانچ، سات یا اس سے بھی زیادہ بار وہ ہال کا مرکزی دروازہ کھول کر اندر باہر گئے اور آئے۔ اس قسم کی سرگرمی بھی سربراہِ مملکت کی سطح کی دو طرفہ ملاقات کے پروٹوکول کے منافی ہوتی ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر یہ ہوا اور اس ملاقات میں ان کی وجہ سے بار بار خلل پڑتا رہا۔
یہ دو واقعات ذہن میں آئے تو ایک واقعہ استنبول کا بھی ذہن میں آ گیا۔ معرکہ چناق قلعے (گیلی پولی وار) کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر مارچ 2015ء میں استنبول میں ایک بین الاقوامی کانفرنس ہوئی جس میں کوئی 40 کے قریب ممالک شریک ہوئے۔ کانفرنس میں برطانیہ کی نمائندگی شاہ چارلس نے کی جو اس وقت ولی عہد تھے۔
کانفرنس میں ولی عہد کی شرکت نے بہت سے لوگوں کو بے چین کیے رکھا۔ ان کی خواہش تھی اور شاید جائز بھی ہوگی کہ کسی نہ کسی طرح ان کی تصویر اس کے ساتھ بن جائے۔ ہمارے اس افسر اعلیٰ نے سرکاری فوٹو گرافر کو ہدایت کی کہ وہ ان کی چند تصویریں شہزادہ چارلس کے ساتھ ضرور بنائے۔ فوٹو گرافر کی سہولت کے لیے جب موقع ملتا وہ شہزادے کے دائیں بائیں، آگے پیچھے سے ضرور گزرتے لیکن کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ کوئی ایک ڈھنگ کی تصویر ان کی نہ بن سکی جسے وہ فخر کے ساتھ اپنے لِونِگ روم کی زینت بنا سکتے۔
ان کے مقابلے میں وزارت خارجہ کا ایک اسسٹنٹ زیادہ جرات مند نکلا۔ کانگریس ہال میں اس نے دیکھا کہ شہزادہ اپنے جلوس کے ساتھ اس طرف آ رہا ہے جہاں وہ کھڑا تھا، وہ بڑی بے تکلفی کے ساتھ آگے بڑھا اور اس نے مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ خوش خلق شہزادے نے پر جوش مصافحہ کیا اور نوجوان کے سینے پر پاکستان کا بیج دیکھ کر چند تعریفی جملے پاکستان کے لیے بھی کہے۔
چٹی چمڑی پر ہمارے لوگوں کے ریشہ ختمی ہونے کی داستانیں بڑی لذیذ ہوتی ہیں لیکن مجھے یہاں ذکر ایران کے تعلق سے ایک واقعہ بیان کرنا ہے۔
چناق قلعے کانفرنس میں وقفے ہوتے تو سربراہانِ مملکت اپنے وفود کے ساتھ دائیں اسنیک کارنرز پر چلے جاتے اور چائے کافی پر ہلکی پھلکی گپ شپ کر لیتے۔ ایسے مواقع بھی ہوتے ہیں جب بعض ملکوں کے درمیان بڑی بڑی لڑائیوں کے باوجود سلسلہ جنبانی ہو جاتا ہے اور بات دانت کاٹی دوستی تک جا پہنچتی ہے۔ خیر، ہم لوگ بھی ایک وقفے کے دوران کافی سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ کوئی ایرانی سفارت کار میرے قریب آیا اور اس نے مجھ سے کہا:
‘ برادر، کیا یہ ممکن ہے کہ آپ عالی جناب صدر مملکت کے کان میں کچھ کہہ دیں؟’
میں نے پوچھا کہ معاملہ کیا ہے؟ کہنے لگے کہ آپ عالی جناب کو آگاہ کریں کہ ایران کے صدر یہاں سے گزرنے والے ہیں، آپ اجازت دیں تو مصافحہ و معانقہ کے لیے وہ تھوڑی دیر آپ کے پاس بھی رک جائیں۔
ایرانی سفارت کار یہ کہہ کر میرے قریب سے ہٹا ہی ہو گا کہ وہی ملاقات کو خلل سے دوچار کرنے والے افسر اعلیٰ اڑتے ہوئے میرے پاس پہنچے اور پوچھا کہ کیا کہہ رہا تھا؟ میں نے انہیں بتایا تو ان کے چہرے پر سوچ کی لکیریں گہری ہو گئیں۔ اس کے بعد انہوں نے کچھ ایسی ترکیب لڑائی کہ ہمارے صدر صاحب کو ایرانی صدر کے گزرنے سے پہلے ہی وہاں سے کسی دوسری جگہ جانے پر آمادہ کر لیا۔
استنبول کے واقعات نیز پروفیسر صاحبہ کی زندہ دلی، اس افسر اعلیٰ کی بے چینی اور تصویر بنوانے کے شوق کی یادیں تو محض برسبیل تذکرہ بیچ میں آگئیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران کے صدر مارچ 2016ء کے دورے کے موقع پر زندگی کے مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کی بڑی بھرپور تجاویز کے ساتھ تشریف لائے تھے۔
ایسا نہیں ہے کہ پاکستان اور ایران کے مابین گرم جوش تعلقات کی خواہش یک طرفہ تھی۔ یہ خواہش ہمیشہ سے دو طرفہ رہی ہے اور اس کے باوجود رہی ہے کہ ایران جب پاکستان سے کھچا کھچا رہتا تھا تب بھی پاکستانی قیادت ایران کے لیے ہمیشہ پُرجوش اور پُر خلوص رہی ہے۔ اس بار بھی جب جناب حسن روحانی پاکستان تشریف لائے تو باہمی تعاون کے ضمن میں ہمارا ایجنڈا بھی کچھ کم پُر جوش نہ تھا لیکن کلبھوشن یادیو کے قصے نے سب کچھ تلپٹ کر کے رکھ دیا۔
یہ تو ممکن نہیں کہ 2016ء سے اب تک دونوں ملکوں کے درمیان نہایت اعلیٰ سطح پر روابط نہیں ہوئے لیکن پاک ایران سرحد پر مشترکہ مارکیٹوں کی تعمیر اور گوادر کے لیے سستی بجلی کی فراہمی کے ضمن میں جو پیش رفت ہوئی ہے، وہ واقعی تاریخ ساز ہے۔
پاکستان اور ایران کے درمیان ہونے والی اس پیش رفت پر غور کرتے ہوئے یہ خیال ہرگز راہ میں نہیں آنا چاہیے کہ تعاون کی یہ نئی صورت مجرد پاکستان اور ایران کے درمیان ہے، خطے بلکہ عالمی سطح پر اس معاملے کا کوئی تعلق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ چین، سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونے والی پیش رفت کا دوسرا سنگِ میل ہے اور یہ ایک بہت بڑے بین الاقوامی اقتصادی اور سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔
پاکستان اور ایران کے درمیان یہ پیش رفت ہو یا چین، سعودی عرب اور ایران کے درمیان قربت، ان واقعات کا بنیادی تعلق اس بین الاقوامی اقتصادی انتظام کار سے ہے جس کے تحت اس خطے میں اقتصادی سرگرمیوں کے فروغ کے ذریعے خوش حالی کا فروغ ہے۔ اسے ایک خطے ایک شاہراہ (ون بیلٹ ون روڈ) اور پاک چین اقتصادی راہداری سے منسلک بھی سمجھا جا سکتا ہے اور اگر چاہیں تو اس سے بڑا کوئی انتظام بھی سمجھ لیں۔
اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ عالمی طاقتوں کے درمیان روایتی آویزش کی مختلف صورتیں موجود ہیں، پاکستان کو جن کے نقصانات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے لیکن اس کے باوجود ایک وسیع مفاہمت کے تحت اقتصادی سرگرمیوں کے فروغ پر بھی اتفاق رائے ہو چکا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں چین، ایران سعودی مفاہمت ہو یا اس کے دروازے پر پاکستان اور ایران کے درمیان نئی قربت، یہ سب اسی مفاہمت کے مظاہرے ہیں۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ خطے میں معاشی ترقی کی ایک دوڑ شروع ہونے والی ہے۔ اس دوڑ میں جو ملک پورے جذبے اور پوری توانائی کے ساتھ شریک ہو گا، وہی زندگی کی مسرتوں سے ہم کنار ہوگا جو پیچھے رہ جائے گا، اس کا کوئی مستقبل نہیں۔
پاکستان کی داخلی سیاست سے ان تبدیلیوں کا تعلق یہ ہے کہ خطے میں شروع ہونے والے اس نئے دور میں جہاں مختلف ملکوں کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی، وہیں مختلف ملکوں کے اندر بھی معیشت پر توجہ دینے والی قیادت کی گنجائش تو ہوگی لیکن سیاسی لڑائی جھگڑوں میں وقت ضائع کرنے والے سیاست دانوں کی ہرگز نہیں۔
مئی 2023ء میں شروع ہونے والے اس نئے دور میں آج عمران خان جہاں کھڑے ہیں، انہیں اس سے بھی مزید پیچھے جانا ہے، اگر اب بھی کسی کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ کیوں تو وہ ان سطور کا مطالعہ دوبارہ کر لے، بات ضرور سمجھ میں آ جائے گی، ان شاءاللہ