ہمارے آج کے کالم کا موضوع افغان وزیر تجارت نورالدین عزیزی کا تجارتی دورہ بھارت ہے۔ افغان وزیر ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ بھارت کی دعوت پر وہاں گئے ہیں۔ اس دورے میں افغانستان بھارت تجارت بڑھانے اور اس مقصد کے لیے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے استعمال کے حوالے سے حکمت عملی بنائی جائے گی۔ اس اہم پیش رفت پر بات کرتے ہیں، مگر پہلے اس سب کچھ کا پس منظر سمجھ لیں۔
مسئلہ درحقیقت کیا ہے؟
افغان طالبان حکومت آج ایک ایک شدید بحران کا شکار ہے۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ جس مخمصے کا شکار ہے، اس سے کس طرح نکلے؟
مسائل 2 ہیں: پہلا نفسیاتی، دوسرا معاشی۔
نفسیاتی مسئلہ یہ ہے کہ افغان طالبان ایک خاص قسم کی نرگسیت یا خودپسندی کا شکار ہیں۔ وہ خود کو فاتح اعظم سمجھتے ہیں جنہوں نے روس اور امریکا جیسی سپرپاورز کو شکست دی۔ وہ یہ بات دل سے شاید مانتے ہوں، مگر تاثر نہیں دیتے کہ ان دونوں جنگوں میں انہیں پاکستان کی بھرپور سپورٹ حاصل تھی۔ اگر یہ پڑوسی ملک ان کے لیے بیس کیمپ اور سیف ہیون نہ بنتا تو یقینی طور پر وہ دونوں لڑائیاں ہار جاتے۔
افغان طالبان حکومت اپنے عوام میں اس نام نہاد اوور کانفیڈنٹ قسم کے اپنے امیج کو پروموٹ کرنے میں لگی ہے۔ جس کا تقاضا ہے کہ پاکستان کو کچھ نہ سمجھا جائے، ایک شان بے نیازی کا مظاہرہ کیا جائےاور یہ تاثر دیں کہ ہمیں پاکستان کی کوئی پروا نہیں، ہمارے پاس بہتر متبادل موجود ہیں۔
دوسرا مسئلہ جو پریکٹیکل ہے، زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہے اور اس کا تعلق خالصتاً معیشت سے ہے۔ وہ یہ کہ افغانستان تاریخی طور پر اس خطے سے تجارتی تعلق میں جڑا رہا ہے جو آج پاکستان کہلاتا ہے۔ ایک لینڈ لاک ملک کے طور پر افغانستان کے لیے تجارت کی بہترین آپشن پاکستان ہی ہے اور افغان مال کم اخراجات کے ساتھ بھارت تک صرف زمینی راستوں ہی سے پہنچ سکتا ہے۔ نہ صرف افغان مال پاکستان آ سکتا ہے بلکہ پاکستان کی بہت سی اشیا افغانستان میں نسبتاً سستے داموں دستیاب ہوسکتی ہیں۔
پاکستان کے علاوہ کوئی دوسری آپشن افغانستان کو زیادہ سوٹ نہیں کرتی۔ اس کے باوجود افغان نائب وزیراعظم اور وزیر برائے اقتصادیات ملا عبدالغنی برادر نے افغان تاجروں کو کہا ہے کہ وہ پاکستان سے درآمدات اور برآمدات بند کرنے کی تیاری کریں اور 3 ماہ میں متبادل مارکیٹس ڈھونڈ لیں۔
افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت
افغانستان ایک لینڈ لاکڈ ملک ہے یعنی اس کے ساتھ کہیں پر سمندر نہیں لگتا، اس لیے بندرگاہ نہیں اور پانی کے راستے براہ راست تجارت ممکن نہیں۔ افغانستان کی سرحد 6 ممالک سے ملتی ہے۔ شمال کی طرف 3 سنٹرل ایشین ممالک تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے ساتھ افغان بارڈر ملتی ہے۔ شمال مشرق میں ایک چھوٹا سا کاریڈور چین کے ساتھ ملتا ہے۔ مغرب میں ایران ہے جبکہ مشرق میں پاکستان۔
خاصے عرصے سے افغان تجارت میں پاکستان سب سے بڑا پارٹنر رہا ہے۔ افغانستان پاکستان سے خاصی چیزیں منگواتا ہے جن میں چاول، پاکستانی ادویات، سیمنٹ، سبزیاں خاص کر آلو وغیرہ اور کھانے پینے کی دیگر اشیا شامل ہیں۔ پاکستان افغانستان سے زیادہ تر کوئلہ، کاٹن، پھل خاص کر انگور سیب وغیرہ، ٹماٹر اور پیاز وغیرہ منگواتا ہے۔
افغانستان کی تاجکستان سے زیادہ تجارت نہیں ہوتی، دونوں ممالک کے تعلقات میں قدرے کشیدگی ہے۔ افغانستان کا الزام ہے کہ احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود تاجکستان ہی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ طالبان سمجھتے ہیں کہ سابق افغان حکمران اشرف غنی بھی تاجکستان چلے گئے تھے۔ افغانستان تاجکستان کے ساتھ تجارت نہ ہونے کے برابر ہے، دو تین فیصد سے زیادہ نہیں۔
ازبکستان کے ساتھ ملا عمر کے دور میں تعلقات کشیدہ رہے، مگر موجودہ افغان طالبان حکومت کے ازبکستان کے ساتھ تعلقات نارمل ہیں، دونوں میں تجارت بھی ہوتی ہے۔ اگرچہ افغانستان وہاں سے چیزیں زیادہ لیتا ہے، بھیج کم پاتا ہے۔ یہی ترکمانستان کا معاملہ ہے۔ افغانستان ترکمانستان سے تیل گیس وغیرہ لیتا ہے۔ دراصل تینوں سنٹرل ایشین ممالک کے پاس اپنے پھل سبزیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں ،انہیں افغانستان سے لینے کی ضرورت نہیں جبکہ ان کے پاس تیل، گیس وغیرہ بھی ہے تو افغان کوئلہ ان کے لیے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔
ایران کے ساتھ البتہ افغان تجارت نسبتاً زیادہ ہے، پاکستان کے لگ بھگ۔ تاہم ان میں افغان ایکسپورٹس بہت کم ہیں جبکہ زیادہ تر ایران سے اشیا منگوائی جاتی ہیں۔ ایندھن، گندم، خوراک وغیرہ۔ چین سے پچھلے سال ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی افغان تجارت رہی، مگر وہ بھی زیادہ تر امپورٹس تھیں، چین چونکہ افغانستان میں بہت سے پراجیکٹس کر رہا ہے، اس لیے تعمیراتی سامان، الیکٹرانکس وغیرہ آئے۔
پاکستان کی افغانستان کے لیے 2 اعتبار سے اہمیت زیادہ ہے۔ پاکستان افغان ایکسپورٹ کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ کوئی بھی دوسرا ملک افغانستان سے اتنی زیادہ اشیا نہیں خریدتا اور نہ ہی خریدے گا۔ افغان کوئلہ پاکستان کے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ ہمارے کئی پاورپلانٹس قدرے سستی بجلی پیدا کرنے کے لیے کوئلے پر چلتے ہیں۔ افغان پھل انگور وغیرہ، ڈرائی فروٹس بھی پاکستان کے لیے اہم ہیں کہ ان کی یہاں کھپت ہے۔ اگر پاک افغان تعلقات بہتر ہوں اور امن امان قائم رہے تو پاکستان افغانستان سے کئی سو ملین ڈالر کا کوئلہ مزید امپورٹ کر سکتا ہے۔ افغانستان کی ایکسپورٹ دوگنا ہوسکتی ہے۔
دوسرا فائدہ افغانستان کو راہداری لینے کی صورت میں بھی رہا ہے۔ پاکستانی تاجر اپنا مال سنٹرل ایشیائی ممالک تک پہنچانے کے لیے افغان راستہ استعمال کرتے ہیں۔ سینکڑوں ٹرک پاکستانی مال تاجکستان، ازبکستان وغیرہ لے کر جاتے رہے، افغان حکومت ان پر راہداری ٹیکس لیتی رہی۔ جبکہ سنٹرل ایشین ممالک سے مال بذریعہ افغانستان اور پاکستان انڈیا تک پہنچانے کے لیے پراجیکٹس پر بھی بات ہوتی رہی ہے جیسے تاپی گیس لائن پراجیکٹ یا ازبکستان ریلوے پراجیکٹ۔ ان سب سے بھی افغان حکومت کو آمدنی ہوگی، مگر سردست تو یہ سب پس پشت جا چکا ہے۔
پاکستانی پراڈکٹس کی افغانستان میں اہمیت
بطور صحافی افغانستان میں کئی بار جانے کا موقعہ ملا۔ حامد کرزئی، اشرف غنی ادوار میں اور موجودہ طالبان حکومت کے دور میں بھی وہاں کے سفر کیے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ اشرف غنی دور میں پاکستانی سفیر صادق خان تھے۔ انہوں نے ہمیں ایک تفصیلی بریفنگ میں بتایا کہ افغان عوام چونکہ طویل عرصہ پاکستان رہ چکے ہیں، آتے جاتے بھی رہتے ہیں اس لیے پاکستانی چیزیں انہیں زیادہ پسند ہیں۔ ان کا پاکستانی پراڈکٹس کے لیے ٹیسٹ ڈویلپ ہوچکا ہے۔
صادق خان نے مثال دی کہ پاکستانی ڈبے والا دہی افغانستان میں بہت مقبول اور مشہور ہے، ایرانی دہی اس سے سستا ہے، مگر افغان عوام پاکستانی دہی اچھا سمجھ کر کھاتے ہیں۔ یہی رویہ افغانوں کا پاکستانی میڈیسن کے بارے میں بھی ہے، وہ اسے انڈین ادویات سے بہتر سمجھتے ہیں۔
صادق خان نے بتایا کہ وہ ایک وزیر کے پاس ملنے گئے تو اس نے شکایت کی کہ میرے سر میں شدید درد ہے، میں نے بھارتی پیراسیٹامول منگوا کر کھائی تو کچھ فرق نہیں پڑا۔ اب پاکستانی پیراسیٹا مول منگوائی ہے کیونکہ یہ اچھی ہے، اس سے فوری آرام آ جاتا ہے۔ افغانستان میں تعمیرات کے حوالے سے بھی پاکستانی سیمنٹ پسند کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ زیادہ تر مزدور مستری بھی باجوڑ وغیرہ سے منگوائے جاتےہیں۔
اب طالبان حکومت نے دکانداروں سے کہا ہے کہ وہ پاکستان مال ہٹا دیں۔ کہاجارہا ہے کہ قندھار وغیرہ میں اس حوالے سے حکومتی سختی بھی شروع ہوچکی ہے۔
افغان بھارت تجارت اور عملی مشکلات
افغانستان کی سابق حکومتوں نے بھی بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانےکی بہت کوششیں کیں، مگر کچھ زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے کہ افغانستان کی بھارت سے براہ راست رسائی نہیں۔ افغان ٹرک پاکستان سے گزر کر ہی بھارت جا سکتے ہیں۔ چاہے پشاور سے یا پھر کوئٹہ سے افغان مال واہگہ بارڈر کراس کر کے ہی بھارت جا سکتا ہے۔ یہ نسبتاً سستا آپشن ہے، تاہم حالیہ پاک افغان کشیدگی کے باعث یہ بہت مشکل ہوچکا ہے۔
افغان بھارت تجارت کی دوسری آپشن ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے ذریعے ہے۔ افغان مال زمینی راستے سے ایرانی بندرگاہ تک پہنچے اور پھر کارگو بحری جہازوں کے ذریعے بھارت پہنچے۔ اس پراسیس میں ایک تو دن خاصے لگ جاتے ہیں اور پھر ظاہر ہے کاسٹ بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔
تیسرا طریقہ فضائی ہے۔ کابل یا قندھار سے ہوائی جہازوں کے ذریعے مال بھارت بھیجا جائے۔ یہ سب سے مہنگا طریقہ ہے۔ چند سال پہلے امریکی دباؤ پر شاید بھارت افغان ائیر کاریڈور بنانے کی کوشش کی گئی۔ کابل دہلی ائیر فریٹ کاریڈور کے نام سے یہ انیشیٹو کیا گیا۔ کوشش کے باوجود آٹھ، دس ٹن ماہانہ سے زیادہ ساماں نہیں جا سکا۔ یہ تجربہ بری طرح ناکام ہوا کیونکہ فی کلومیٹر لاگت دیگر آپشنز سے پانچ چھ گنا زیادہ مہنگا تھا۔
دراصل کرزئی اور غنی حکومتوں نے بھارت کے ساتھ سیاسی اور امدادی شراکت ضرور قائم کی، مگر تجارتی تعاون ہمیشہ جغرافیائی حقیقتوں کا اسیر رہا۔ بھارت سرمایہ کاری کر سکتا تھا، تجارت نہیں بڑھا سکتا تھا، کیونکہ افغانستان کے لیے رسائی کا حقیقی راستہ اسلام آباد سے گزرتا تھا، نئی دہلی سے نہیں۔ طالبان بھی یہی حقیقت بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر عملاً وہی جغرافیہ آج بھی غالب ہے۔ اگرچہ افغان طالبان کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی، وہ اپنے ماضی سے کچھ سیکھنے کو تیار نہیں۔
افغان طالبان کو یہ بات بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کا ستر پچھتر فی صد انحصار غیر ملکی امداد پر تھا۔ امریکی اور نیٹو فورسز تب افغانستان میں موجود تھیں۔ ان کی مدد سے ملک چل رہا تھا۔ تجارت تب افغان حکومتوں کی پہلی ترجیح نہیں تھی۔ افغان طالبان حکومت کا البتہ سرواوئیل ہی معیشت پر ہے، اپنے ہمسائیوں خاص کر پاکستان سے تجارت ان کے لیے بہت اہم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغان حکومت چاہے تو بھارت سے تعلقات ضرور بڑھا سکتی ہے، لیکن اگر معیشت بچانی ہے تو اسے پاکستان کا دروازہ کھٹکھٹانا ہی ہوگا۔
افغانستان بھارت ممکنہ تجارت
افغان وزیر تجارت کا حالیہ بھارتی دورہ بظاہر کابل کی نئی سفارتی سمت کا اشارہ ہے، مگر تجارتی نقطہ نظر سے اس کا قابلِ عمل ہونا ابھی سوالیہ نشان ہے۔ افغانستان جغرافیائی طور پر جس خطے میں واقع ہے، وہاں سے بڑے پیمانے پر تجارتی سرگرمی پاکستان کے بغیر ممکن نہیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کو سفارتی اشارے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، مگر معاشی سہارا پھر بھی اسی راستے سے مل سکتا ہے جو گزشتہ سات دہائیوں سے کابل کی بنیادی تجارتی شاہراہ رہا ہے یعنی پاکستان۔ افغانستان کی تجارتی نبض بدستور پاکستان کے راستے دھڑکتی ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت سے افغانستان چیزیں منگوا تو لے گا، مگر افغان ایکسپورٹس وہاں بہرحال نہیں چل پائیں گی کہ بھارتی صعنت کاروں کو مہنگا افغان مال وارے نہیں کھاتا۔
پاکستان افغانستان تجارت ختم ہونے سے پاکستان کو بھی کچھ نقصان تو ہے، مگر بہرحال افغان معیشت زیادہ بری طرح سے متاثر ہوگی۔ چند ماہ تک ایسا ہوتا رہا تو افغان کرنسی بھی نیچے گرے گی۔ اس سے مزید مہنگائی بڑھے گی۔
افغان طالبان حکومت کو یہ سب باتیں سمجھنا چاہییں۔ان کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ دہشتگرد گروہوں سے خود کو الگ کریں اور پاک افغان تعلقات نارملائز کریں۔ اس سے انہیں بہت زیادہ معاشی فوائد میسر ہوسکتے ہیں۔ یہ بات جتنا جلد افغان طالبان قیادت کو سمجھ آ جائے اتنا ہی ان کے لیے اچھا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













