افغان طالبان نے ایک ایسے رہنما کو کالعدم ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے والے ’اصلاحی کمیشن‘کا سربراہ مقرر کیا ہے، جو ماضی میں پاکستان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں میں براہِ راست ملوث رہا ہے۔
مولوی قاسم خالد، ایک متنازع تعیناتی
گزشتہ دنوں افغان طالبان نے مولوی قاسم خالد کو اصلاحی کمیشن کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ اس شخصیت کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے سمجھا جاتا ہے اور وہ صوبہ نمروز، کابل اور کنڑ کے گورنر رہ چکے ہیں۔
جب وہ کنڑ کے گورنر تھے تو 2023 میں چترال پر ٹی ٹی پی کا بڑا حملہ ہوا تھا، جس میں مولوی قاسم خالد نے ٹی ٹی پی کو سہولت کاری فراہم کی، حملے کی منصوبہ بندی کروائی، ٹی ٹی پی کے گروہوں کو منظم کیا۔
یہ بھی پڑھیے طالبان نے پُرامن چترال اور کیلاش کو نشانہ کیوں بنایا؟
پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے مطابق مولوی قاسم خالد نہ صرف سہولت کار بلکہ منصوبہ ساز بھی تھا۔
کمیشن کا کردار
اصلاحی کمیشن بنیادی طور پر امیر کے احکامات پر عمل درآمد کی نگرانی کرتا ہے، افغان سیکیورٹی فورسز میں ڈسپلن پر نظر رکھتا ہے، افغانستان کی سرزمین سے ہونے والی ’جہادی کارروائیوں‘ پر نظر رکھتا ہے۔ ٹی ٹی پی، حافظ گل بہادر گروپ اور دیگر عسکری گروہوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لینا بھی اسی کمیشن کی ذمہ داری ہے۔
یہ بھی پڑھیے چترال میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی، 7 دہشت گرد ہلاک، 6 زخمی
دلچسپ (اور پاکستان کے لیے تشویش ناک) بات یہ ہے کہ اسی شخص کو ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کی نگرانی کا ذمہ دیا گیا ہے جو خود ان کی مدد کرتا رہا ہے۔
پاکستان کی تشویش
پاکستان کا مؤقف ہے کہ حقانی نیٹ ورک کا ٹی ٹی پی کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کر رہے ہیں۔ا ور ایسی تقرریاں افغان طالبان رجیم کی پالیسی کا واضح اشارہ ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ فیصلہ پاکستان افغانستان تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا کر سکتا ہے۔ تاہم ماہرین اس فیصلے کو ناقابل فہم بھی قرار دیتے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان کشیدگی کے باعث افغان عوام شدید مشکلات کے شکار ہیں۔














