بلوچستان کی ٹھنڈی فضاؤں میں ایک بار پھر سیاسی درجہ حرارت بڑھ گیا ہے۔ صوبے کے سیاسی ایوانوں میں یہ بحث زور پکڑ چکی ہے کہ آیا وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی واقعی اپنی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت خصوصاً صدر مملکت آصف علی زرداری کی ناراضگی کا شکار ہیں یا نہیں؟ اس سوال نے صوبے میں جاری سیاسی کھینچا تانی کو مزید شدت دے دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی پی پی اراکین کا وزیر اعلیٰ بلوچستان پر عدم اعتماد کا اظہار؟
گزشتہ ہفتے مسلم لیگ ن کے رہنما اور سینیٹر دوستین ڈومکی نے اپنے ایک بیان میں تہلکہ مچا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں خراب طرز حکمرانی اور انتظامی کمزوریوں کے باعث میر سرفراز بگٹی کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔
دوستین ڈومکی نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان موجود ڈھائی، ڈھائی سال کے فارمولے کے تحت پیپلز پارٹی کے اقتدار کا دورانیہ مکمل ہونے کے بعد وزارت اعلیٰ کے لیے نیا نام زیر غور ہے۔ ان کے اس بیان نے سیاسی حلقوں میں شدید ہلچل پیدا کی اور ایک نئی بحث نے جنم لیا۔
صورتحال یہیں نہیں رکی بلکہ پیپلز پارٹی کے اپنے رہنما، مشیر لیاقت لہڑی اور رکن صوبائی اسمبلی علی حسن زہری بھی متعدد مرتبہ وزیر اعلیٰ بلوچستان سے اپنے تحفظات اور ناراضی کا اظہار کر چکے ہیں
پارٹی کے اندرونی اختلافات کے یہ شعلے بظاہر دبے ہوئے تھے لیکن ڈومکی کے بیان نے انہیں مزید بھڑکا دیا۔
مزید پڑھیے: بلوچستان کی مخلوط حکومت میں اختلافات، سرفراز بگٹی کی وزارت اعلیٰ خطرے میں؟
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان کے معتبر ذرائع نے انکشاف کیا کہ پارٹی کے صدر آصف علی زرداری واقعی وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ کچھ روز قبل وزیر اعلیٰ بگٹی نے صدر زرداری سے ملاقات کرنے کی کوشش کی تاہم صدر نے ملاقات کا وقت دینے سے انکار کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع نہیں بلکہ اس قبل بھی میر سرفراز بگٹی اسلام آباد میں صدر مملکت سے ملاقات کے لیے گئے تھے لیکن انہیں وہاں بھی ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔
ذرائع کے مطابق یہ مسلسل انکار کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں بلکہ بلوچستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور پارٹی کے اندرونی معاملات پر سرفراز بگٹی کی عدم دلچسپی اس کی بنیادی وجہ ہے۔
پارٹی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ صدر آصف علی زرداری کا سمجھتے ہیں کہ بلوچستان صوبے جیسی حساس سیاسی فضا میں وزارت اعلیٰ پر کسی اصل جیالے کو ہونا چاہیے نہ کہ ایک ایسے رہنما کو جو چند سال قبل پیپلز پارٹی میں شامل ہوا ہو۔
مزید پڑھیں: بلوچستان میں تبدیلی کی ہوا، سرفراز بگٹی کتنے مضبوط ہیں؟
اطلاعات کے مطابق کچھ حکومتی ایم پی ایز بھی وزیر اعلیٰ سے ناخوش ہیں اور پارٹی کے کئی حلقے ان کی سیاسی حکمت عملی، بیوروکریسی پر گرفت اور اندرونی مشاورت کے فقدان پر سخت تحفظات رکھتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک کم از کم 3 ارکان اسمبلی وزیر اعلیٰ کے خلاف کھل کر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں جبکہ مستقبل میں ناراضی کی یہ فہرست مزید طول پکڑ سکتی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے اندرونی اختلافات معمول کی بات سمجھے جاتے ہیں مگر بلوچستان کا معاملہ مختلف ہے۔ یہاں ہر سیاسی فیصلہ صوبے کی حساس قومی، قبائلی اور سیکیورٹی صورتحال سے جڑا ہوتا ہے۔
میر سرفراز بگٹی اگرچہ ایک مضبوط سیکیورٹی بیانیہ رکھتے ہیں اور اپنی انتظامی سختی کے باعث خاص پہچان بھی بنائی ہے تاہم پارٹی کے روایتی دھڑوں اور زرداری گروپ کے ساتھ ان کے تعلقات ہمیشہ سے پیچیدہ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: صوبے کا 200 ارب کا ترقیاتی بجٹ ناکافی ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق سرفراز بگٹی پر زرداری کی ناراضی اگر حقیقت ہے تو یہ محض انتظامی کارکردگی کا معاملہ نہیں بلکہ ایک بڑی اندرونی کشمکش کا حصہ ہے۔
زرداری پارٹی کے پرانے جیالوں کو دوبارہ متحرک کرنے کی کوشش میں ہیں جبکہ بگٹی پیپلز پارٹی کے لیے ایک نیا مگر غیر روایتی سیاسی چہرہ ہیں۔
ادھر مسلم لیگ ن کے رہنما دوستین ڈومکی کا بیان اس امکان کو مزید تقویت دیتا ہے کہ مرکز اور صوبہ دونوں سطحوں پر کسی نہ کسی سیاسی جوڑ توڑ کی تیاری ہو رہی ہے۔
مزید پڑھیں: پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد بڑھانا ہوگی، وزیر اعظم نے خبردار کردیا
فی الحال صورتحال واضح نہیں مگر ایک بات طے ہے کہ بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کی کرسی ایک بار پھر سیاسی طوفان کے مرکز میں ہے اور آئندہ چند ہفتے اس صوبے کی سیاست میں غیر معمولی موڑ لا سکتے ہیں۔












