کراچی جہاں پانی کے دھندے سے روزانہ اربوں روپے بنائے جاتے ہیں، لیکن شہری بوند بوند کو ترس گئے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور اقتصادی مرکز، ایک دہائیوں پرانے اور شدید پانی کے بحران سے دوچار ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ شہر کی طلب اور فراہمی کے درمیان بہت بڑا فرق ہے، جس کا براہِ راست اثر اس کے کروڑوں شہریوں کی روزمرہ کی زندگی پر پڑ رہا ہے۔
پانی کی فراہمی میں تکنیکی اور انتظامی ناکامیاں
کراچی میں پانی کے بحران کی بنیادی وجہ صرف پانی کی کمی نہیں ہے بلکہ پانی کی تقسیم، انتظام اور بنیادی ڈھانچے کے مسائل ہیں۔ شہر کی زیرِ زمین پانی کی پرانی پائپ لائنیں جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں یا ان میں رساؤ ہوتا ہے، جس سے اندازاً 25 فیصد تک پانی ضائع ہو جاتا ہے۔
مرکزی پمپنگ اسٹیشنوں (جیسے دھابے جی اور کے تھری) کی لائنوں میں بار بار رساؤ یا خرابی آتی ہے، جس کی مرمت کے لیے بڑے پمپس کو بند کرنا پڑتا ہے، اور شہر کو کئی روز تک شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کے الیکٹرک کی وجہ سے پانی کی فراہمی متاثر
پانی پمپنگ اسٹیشنوں کو چلانے کے لیے بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کے الیکٹرک (KE) کی جانب سے بار بار بجلی کے بریک ڈاؤن یا وولٹیج میں کمی کی وجہ سے پمپنگ اسٹیشن بند ہو جاتے ہیں، جس سے لاکھوں گیلن پانی کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔ حالیہ رپورٹس میں بجلی کی خرابیوں کی وجہ سے شہر میں پانی کی بہت بڑی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
پانی چوری اور ٹینکر مافیا کا کردار
پانی کی مین لائنوں سے غیر قانونی کنکشنز لگا کر پانی چوری کیا جاتا ہے۔ پانی کا ٹینکر مافیا شہر میں پانی کا مصنوعی بحران پیدا کرنے میں ملوث ہے۔ وہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس سے پانی بھر کر شہریوں کو مہنگے داموں بیچتے ہیں۔
کراچی کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، لیکن پانی کی فراہمی کے نظام کو اس رفتار سے اپ گریڈ نہیں کیا گیا، جس سے طلب (Demand) اور رسد (Supply) کا فرق کئی سو ملین گیلن یومیہ تک پہنچ گیا ہے۔
شہر کے مختلف علاقوں میں شدید قلت
شہر کے مختلف علاقوں، جیسے نارتھ ناظم آباد، گلشن اقبال، گلستانِ جوہر، اور فیڈرل بی ایریا میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے، جبکہ بلدیہ ٹاؤن، لیاری سمیت کئی علاقے ایسے ہیں جہاں پانی کی لائنیں ہی نہیں۔
حالیہ مہینوں میں نارتھ ایسٹ پمپنگ اسٹیشن (NEK) اور دھابے جی جیسے بڑے اسٹیشنوں پر تکنیکی خرابیوں اور پائپ لائنوں میں رساؤ کی وجہ سے شہر کو 150 MGD تک پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ٹینکر مافیا کی لوٹ مار اور شہریوں پر بوجھ
سپلائی میں تعطل کے باعث شہریوں کو اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے ٹینکر مافیا سے مہنگے داموں پانی خریدنا پڑ رہا ہے، جس سے قیمتیں 4 گنا تک بڑھ گئی ہیں۔
اس وقت کراچی میں پانی کا ٹینکر 15 ہزار روپے سے 25 ہزار روپے تک ہے، جبکہ کم آمدن والے شہری 20 لیٹر والا ایک گیلن 40 روپے میں خریدنے پر مجبور ہیں۔
کے فور منصوبہ اور مستقبل کی امیدیں
کے فور منصوبہ کراچی کو پانی کی فراہمی بڑھانے کا ایک بڑا منصوبہ ہے، جو دریائے سندھ سے اضافی پانی لانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ طویل عرصے سے التوا کا شکار تھا، لیکن اب اس کی تکمیل پر تیزی سے کام جاری ہے۔
پانی کی چوری پر سینیئر صحافی کی رائے
سینیئر صحافی رجب علی کے مطابق سرِعام پانی کی چوری ہو رہی ہے جو سب کو نظر آرہی ہے۔ ان کے مطابق اس میں واٹر بورڈ ملوث ہے، روزانہ اربوں روپے اس دھندے سے کمائے جاتے ہیں، تو کون ہوگا جو اس اربوں روپے کے دھندے کو ختم کرے؟
ان کا کہنا ہے کہ بڑی بڑی لائنوں سے کنڈے لیے گئے ہیں، غیر قانونی ہائیڈرنٹس چل رہے ہیں، وہ پانی جو عام شہریوں کا حق ہے، وہ انہیں مہنگے داموں مل رہا ہے۔













