سائبر سیکیورٹی ماہرین اور متعلقہ حکام نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی وی پی اینز (VPNs) کا استعمال قومی سلامتی، سماجی استحکام اور ڈیجیٹل معیشت کے لیے ایک بڑھتا ہوا خطرہ بن چکا ہے۔
حکومتی اداروں کے مطابق، ان رجسٹرڈ نہ ہونے والے وی پی اینز کے ذریعے ایسے بہت سے عوامل کو تقویت مل رہی ہے جو قانون نافذ کرنے والے نظام کے لیے چیلنج بن رہے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ غیر قانونی وی پی اینز کی مدد سے بعض دہشتگرد گروہ اور جرائم پیشہ عناصر اپنی لوکیشن چھپا کر آن لائن سرگرم رہتے ہیں، پروپیگنڈا پھیلاتے ہیں اور نگرانی سے بچ نکلتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ملک میں کوئی وی پی این بلاک نہیں ہوگا، چیئرمین پی ٹی اے حفیظ الرحمان
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، سرحد پار سے چلنے والے بعض مشتبہ اکاؤنٹس، جن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان مخالف بیانیہ پھیلاتے ہیں۔ غیر قانونی وی پی اینز کے ذریعے ملکی ناظرین کو نشانہ بناتے ہیں۔
سائبر انٹیلیجنس ماہرین کا کہنا ہے کہ وی پی این کی گمنامی کرپٹو اور ڈیجیٹل والٹس کے ذریعے پوشیدہ مالی لین دین کو بھی آسان بناتی ہے، جو کالعدم تنظیموں کے ممکنہ مالی نیٹ ورکس تک پہنچنے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اسی طرح، خفیہ آن لائن رسائی سے عسکریت پسندوں کی ممکنہ ورچوئل کمیونیکیشن، تربیتی مواد اور رابطہ کاری کے خدشات بھی سامنے آتے ہیں۔
ٹیکنالوجی تجزیہ کاروں کے مطابق، غیر فلٹر شدہ وی پی این ٹریفک ملک کے اندر انتہا پسند مواد، غیر قانونی آن لائن کمیونٹیز اور حساس معلومات تک رسائی کو ممکن بناتی ہے، جس کا اثر خصوصاً نوجوانوں پر پڑتا ہے جو غیر منظم آن لائن نیٹ ورکس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: وی پی این کی بندش، چیئرپرسن قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی نے وزارت داخلہ سے جواب طلب کرلیا
غیر قانونی وی پی اینز سائبر جرائم کے لیے بھی راستہ ہموار کرتے ہیں جن میں ہیکنگ، ڈیٹا چوری، فراڈ اور سائبر بُلیئنگ شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق، ایسے پلیٹ فارمز کے ذریعے غلط معلومات، افواہیں اور سیاسی بیانیے کی برہمی کا پھیلاؤ بھی ممکن ہے۔
ریگولیٹری اداروں نے خبردار کیا ہے کہ غیر رجسٹرڈ وی پی اینز قومی انٹرنیٹ فلٹرنگ کے نظام کو غیر مؤثر کر دیتے ہیں جس سے میڈیا کی سالمیت، ٹیکسیشن، ڈیجیٹل مارکیٹس اور آن لائن کاپی رائٹس کے نفاذ پر اثر پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ڈیجیٹل پائریسی، غیر قانونی کاروبار اور عالمی مارکیٹ پلیسز کا غلط استعمال بڑھنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
سائبر سیکیورٹی ماہرین کے مطابق، وی پی این کے ذریعے آنے والی خفیہ ٹریفک میلویئر اور بیرونی سائبر حملوں کے امکانات بھی بڑھاتی ہے، جس سے قومی انفراسٹرکچر کے لیے نئے سائبر ’بلائنڈ اسپاٹس‘ پیدا ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پی ٹی اے نے ’وی پی اینز‘ کی رجسٹریشن کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن میں توسیع کر دی
حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ڈیجیٹل ماحول کو محفوظ بنانے کے لیے وی پی این رجسٹریشن، نگرانی اور مؤثر ریگولیشن ناگزیر ہو چکی ہے۔ ان کے مطابق، منظم اقدامات کے بغیر سائبر خطرات، اقتصادی بے ضابطگیاں اور معلوماتی سلامتی کے مسائل مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔














