کیا عمران خان کی دوبارہ گرفتاری کی صورت میں عوام اسی غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرے گی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچائے گی؟ اس سے بھی بڑا سوال جو ہر پاکستانی ایک دوسرے سے پوچھتا ہے کہ کیا حکومت 9 مئی کے واقعات اور ردعمل کے بعد پھر سے عمران خان کو گرفتار کرنے کا سوچے گی؟
اگر عمران خان کی دوبارہ گرفتاری حکومتی ایجنڈے میں شامل ہے تو کب؟ ان تمام سوالات کا جواب ڈھونڈنے کے لیے میں نے مختلف حکومتی ذرائع سے تفصیلاً گفتگو کی اور تمام ذرائع کے جوابات میں ایک بات مشترک ہے کہ عمران خان کی گرفتاری تو حکومتی ایجنڈے میں شامل ہے لیکن کب گرفتار کرنا ہے اس پر تمام ذرائع متفق نہیں۔
حکومتی ذرائع سے گفتگو کا لب لباب یہ ہے کہ عمران خان کو کم از کم 30 مئی تک گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ عمران خان کو عدالتوں کی جانب سے جو ضمانت دی گئی ہے تب تک گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ حکومت اس انتظار میں ہے کہ 30 مئی کے بعد جیسے ہی عمران خان کو دی گئی ضمانت کی مدت ختم ہوتی ہے اسکے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا ان کو گرفتار کیا جائے یا نہیں۔ اس سے پہلے حکومت نے جو چند ایک اقدامات لیے ہیں لگتا ہے وہ ایک گراؤنڈ تیار کر رہی تھی تاکہ مستقبل میں جب عمران خان کو گرفتار کیا جائے تو اسکا ردعمل ویسا نہ ہو جیسا کہ 9 مئی کو آیا۔
اگر ہم 9 مئی حملوں کے بعد کے واقعات پر نظر دوڑائیں تو حکومتی حکمت عملی بالکل واضح طور پر سمجھ آتی ہے۔ عدالتوں کی طرف سے عمران خان کو ملنے والے ریلیف پر حکومتی اور دیگر حکومتی مشینری عدلیہ کیساتھ براہ راست ٹکراو سے اجتناب کر رہی تھی اوپر سے عمران خان جیسا ایک قومی لیڈر جس کی بلاشبہ ایک بہت بڑی فالونگ ہو۔ اس صورت میں حکومت کی طرف سے حکمت عملی جو بظاہر سمجھ آتی ہے وہ یہی ہے کہ عدلیہ کو بھی احساس دلایا جائے کہ عدالتوں کا وقار اور انکی رٹ تب ہی ممکن ہے جب تک حکومتی مشینری اس پر عمل درآمد نہیں کراتی۔
اگر لاانفورسمنٹ ادارے عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرانے سے انکار کردیں تو عدالتیں بے وقعت ہوجائیں گی۔ حکومتی اداروں نے عدالتی رٹ کا احساس اعلی عدلیہ کو بخوبی دلایا ہے۔ جیسے ہی عدالتیں کسی پی ٹی آئی رہنما کو ضمانت پر رہائی کے احکامات دیتی ہیں باہر کھڑی کسی دوسرے صوبے کی پولیس انکو دوبارہ گرفتار کرلیتی ہے۔ ججز نے اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ عدالتی احکامات کی جان بوجھ کر حکم عدولی کی جا رہی ہے۔ گویا حکومت نے عدلیہ کویہ باور کرا دیا ہے کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کے ساتھ ساتھ ایگزیکٹو بھی ریاست کا ستون ہیں۔ اور ایگزیکٹو کو بے وقعت کرکے نہ پارلیمنٹ اور نہ ہی عدلیہ اپنی رٹ قائم رکھ سکتی ہے۔
9 مئی کے واقعات سے جو دوسرا گراونڈ حکومت نے تیار کیا ہے تاکہ مستقبل میں عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں ویسا ردعمل نہ آئے جیسا 9 مئی کو آیا وہ ہے بلاتفریق جس نے بھی سرکاری املاک، فوجی تنصیبات اور قومی اداروں پر حملہ کیا ہے ان کے خلاف تادیبی کاروائی۔ اس حوالے سے ہزاروں کی تعداد میں جو گرفتاریاں ہوئی ہیں چاہے وہ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کی ہوں، عام ورکرز کی ہوں یا چاہے ان کا تعلق کسی فوجی خاندان سے ہو۔ ان کاروائیوں سے حکومتی رٹ بہرحال بحال ہوئی ہے۔
اس طرح کی بلاتفریق کاروائیوں سے ایک تو شرپسند جو ۹ مئی کے واقعات میں ملوث تھے ان کو سبق سکھایا جائے گا دوسرا مستقبل میں عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں پرتشدد کاروائیوں کی بھی پیش بندی کی گئی ہے۔
آرمی چیف نے ہفتے کے روز لاہور گیریژن کے دورے میں بتایا ہے کہ فوجی املاک پرحملہ آوروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے فوجی عدالتیں قائم کر دی گئی ہیں۔ یہ عدالتیں ایک ہفتے میں اپنا کام کرنا شروع کردیں گی۔ بلاشبہ لاانفورسمنٹ ادارون کی طرف سے ۹ مئی واقعات کا جو ردعمل آیا ہے اور جس طرح سے پی ٹی آئی کی لیڈرشپ اور ورکرز کی گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں اس سے ایک تو عدلیہ کو بھی پیغام پہنچا ہے کہ حساس تنصیبات پر حملہ کرنے والون کے خلاف کوئی نرم گوشہ نہیں، چاہے عدالتیں ان کو ریلیف دے بھی دیں تو انکو متوازی عدالتی نظام ملٹری کورٹس قائم کرکے بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
دوسرا پیغام عمران خان کے فالوورز اور خود عمران خان کو بھی پہنچایا گیا ہے کہ 9 مئی جیسے واقعات قابل قبول نہیں اور کوئی لیڈر چاہے کتنا ہی پاپولر کیوں نہ ہو وہ ریاست سے اوپر نہیں۔ عمران خان ایسے ہی نہیں انٹرنیشنل میڈیا اور دیگر انٹرینشنل فورمز پر انسانی حقوق کی پامالی اور خلاف ورزیوں کی دہائی دے رہا۔ کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ان حکومتی اقدامات کے نتیجے میں ایک تو انکے سپورٹرز بددل ہو جائیں گے اور دوسرا ان کو عدلیہ سے ویسے بلینکٹ انصاف نہ ملے جیسے اب تک ملتا آرہا ہے۔
9 مئی کے بعد حکومت اور لاانفورسمنٹ ادارے جو کہ بالکل ہی بیک فٹ پر چلے گئے تھے اور عدالت کی طرف سے عمران کان کی رہائی کے احکامات کے بعد جو حکومتی حلقوں کی صورتحال تھی بلاشبہ اس وقت صورتحال اس سے مختلف ہے۔ لیکن عمران خان بھی زیادہ دیر خاموش نہیں بیٹھے گا۔ وہ پلٹ کر وار ضرور کرے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب کی بار پہلا وار کون کرتا ہے؟ حکومت یا عمران خان؟