اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنے عسکری سیکریٹری، جنرل رومن گوفمین کو ملک کی خفیہ ایجنسی موساد کا نیا سربراہ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
العربیہ نیوز کے مطابق گوفمین کے پاس انٹیلی جنس کا باضابطہ تجربہ موجود نہیں، تاہم وہ موجودہ چیف ڈیوِڈ بارنیا کی جگہ جون 2026 میں عہدہ سنبھالیں گے۔
گوفمین 1976 میں بیلاروس میں پیدا ہوئے اور 14 سال کی عمر میں اسرائیل منتقل ہوئے۔ انہوں نے 1995 میں اسرائیلی فوج کے بکتر بند دستے میں شمولیت اختیار کی اور ایک طویل عسکری کیریئر گزارا۔
مزید پڑھیں: موساد قطر میں اسرائیلی حملے کی مخالف اور فیصلے سے ناراض تھی، رپورٹ میں انکشاف
غزہ جنگ کے آغاز پر وہ قومی انفنٹری ٹریننگ سینٹر کے کمانڈر تھے اور 7 اکتوبر 2023 کو سدیروت میں حماس کے جنگجوؤں کے ساتھ جھڑپوں میں شدید زخمی بھی ہوئے۔
گوفمین نے اپریل 2024 میں انہوں نے نیتن یاہو کے دفتر میں بطور فوجی سیکریٹری کام کرنا شروع کیا۔
نیتن یاہو نے حال ہی میں شین بیت (داخلی سیکیورٹی ایجنسی) کے سربراہ کے طور پر بھی ایک مذہبی صہیونی پس منظر رکھنے والے افسر ڈیوڈ زینی کا تقرر کیا تھا۔ اسی تسلسل میں گوفمین کی نامزدگی کو بھی نیتن یاہو کی قوم پرستانہ سوچ کے قریب تصور کیا جا رہا ہے۔
اگرچہ گوفمین عملی مذہبی یہودیوں کی طرح یرمولکا نہیں پہنتے، تاہم وہ مغربی کنارے کی ایک مذہبی یہودی درسگاہ ’ایلی یشیوا‘ میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں جو دائیں بازو کی صہیونی فکر کے لیے مشہور ہے۔
مزید پڑھیں: ایران کا موساد کو خفیہ معلومات فراہم کرنے والے 8 افراد کی گرفتاری کا دعویٰ
بائیں بازو کے اسرائیلی اخبار ہاریٹز کے کالم نگار اُری مسگو نے گوفمین کی نامزدگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں انٹیلی جنس تجربے کی کمی کے باعث موساد کی سربراہی نہیں ملنی چاہیے تھی، جبکہ ان کے بقول اصل وجہ نیتن یاہو کی وفاداری ہے۔
نیتن یاہو کے دفتر نے اپنے بیان میں کہا کہ گوفمین قابلِ قدر افسر ہیں اور جنگی حالات میں بطور عسکری سیکریٹری ان کی کارکردگی ان کی صلاحیتوں کا ثبوت ہے۔
موساد کو دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ 7 اکتوبر کے واقعات کے بعد جہاں دیگر انٹیلی جنس اداروں کے سربراہ مستعفی ہوگئے، وہیں موساد کو اُس ناکامی کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا کیونکہ اس کے اختیارات عام طور پر فلسطینی علاقوں تک نہیں پہنچتے۔














