قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی کا کہنا ہے کہ غزہ کی جنگ میں امریکا کی حمایت سے ہونے والی جنگ بندی کو مضبوط بنانے سے متعلق مذاکرات ایک ’انتہائی نازک مرحلے‘ میں داخل ہو چکے ہیں۔
دوحہ فورم کانفرنس میں ایک سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ثالث کار جنگ بندی کے اگلے مرحلے کو آگے بڑھانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سماجی ترقی و غربت کے خاتمے پر عالمی اتفاق، دوحہ سیاسی اعلامیہ منظور
واضح رہے کہ قطر اس جنگ میں اہم ثالث کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔
The nearly two-month-old ceasefire in Gaza will not be complete until Israeli troops withdraw from the Palestinian territory under a peace plan backed by Washington and the UN, Qatari Prime Minister Sheikh Mohammed bin Abdulrahman al-Thani says.#Gaza #Israel pic.twitter.com/wzhOUbhN91
— Al Arabiya English (@AlArabiya_Eng) December 6, 2025
’ہم ایک نہایت اہم لمحے پر کھڑے ہیں، ابھی ہم وہاں نہیں پہنچے، جو کچھ ہوا ہے وہ محض ایک وقفہ ہے، اس سے مراد وہ نسبتاً کمی ہے جو تقریباً ایک ماہ قبل طے پانے والی غزہ جنگ بندی کے بعد تشدد میں آئی۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ اسے مکمل جنگ بندی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ جنگ بندی تب ہی ممکن ہے جب اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا ہو، غزہ میں استحکام واپس آئے اور لوگ آزادانہ اندر باہر آ جا سکیں، جو بقول ان کے اس وقت ممکن نہیں۔
مزید پڑھیں: سماجی ترقی کا خواب غزہ جنگ کو نظرانداز کرکے پورا نہیں ہوسکتا، صدر مملکت کا دوحہ کانفرنس سے خطاب
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے کے اگلے مراحل کے لیے مذاکرات جاری ہیں، جس کا مقصد فلسطینی علاقے میں 2 سال سے جاری جنگ کو ختم کرنا ہے۔
اس منصوبے کے مطابق غزہ میں ایک عبوری ٹیکنوکریٹ فلسطینی حکومت قائم ہوگی، جس کی نگرانی ایک بین الاقوامی ’امن بورڈ‘ کرے گا، اور اسے ایک بین الاقوامی سیکیورٹی فورس کی معاونت حاصل ہوگی، اس فورس کی تشکیل اور اختیارات پر اتفاق رائے سب سے مشکل مرحلہ ثابت ہو رہا ہے۔
مزید پڑھیں:’صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں پاکستان نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے‘
جمعرات کے روز ایک اسرائیلی وفد نے قاہرہ میں ثالثوں سے ملاقات کی، جس میں غزہ میں موجود آخری یرغمالی کی فوری واپسی پر بات چیت ہوئی، یہ ٹرمپ منصوبے کے اہم ابتدائی حصے کی تکمیل ہوگی۔
کمزور جنگ بندی کے آغاز سے اب تک حماس تمام 20 زندہ یرغمالیوں اور 27 لاشیں واپس کر چکی ہے، جبکہ اس کے بدلے تقریباً 2,000 فلسطینی قیدی اور زیرِ حراست افراد کو رہا کیا گیا ہے۔
اگرچہ 10 اکتوبر کی جنگ بندی کے بعد تشدد میں کمی آئی ہے، لیکن اسرائیل نے غزہ میں حملے اور حماس کے مبینہ انفرااسٹرکچر کی تباہی جاری رکھی ہے، حماس اور اسرائیل ایک دوسرے پر امریکی حمایت یافتہ معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے رہے ہیں۔














