اسرائیلی افواج نے پیر کے روز غزہ کی مختلف علاقوں میں نئی گولہ باری، دھماکے اور فائرنگ کی جو امریکی ثالثی والے جنگ بندی معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ امن منصوبے کا دوسرا مرحلہ، اسرائیلی وزیراعظم نے اہم اعلان کردیا
انادولو نیوز ایجنسی کے مطابق مقامی عینی شاہدین اور غزہ کے میڈیا ذرائع نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے مغربی رفاہ میں رہائشی عمارتوں کو دھماکوں سے تباہ کیا اور شہر کے مشرق میں فائرنگ کی۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فوج نے خان یونس کے مشرق میں توپ خانے اور ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے۔
یہ جنگ بندی معاہدہ 10 اکتوبر کو نافذ ہوا تھا جس نے اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیل کی غزہ پر بے دریغ گولہ باری کو ختم کیا تھا، جس کے نتیجے میں 70,000 سے زائد فلسطینی ہلاک اور 171,000 زخمی ہوئے۔
جنگ بندی کی خلاف ورزیاں
اسرائیلی افواج نے مغربی رفاہ میں رہائشی عمارتیں تباہ کیں، جو جنگ بندی کی شرائط کے تحت ان کے مکمل کنٹرول میں تھی، اور شہر کے مشرق میں فائرنگ کی۔
مزید پڑھیے: غزہ جنگ بندی کو برقرار رکھنے کے لیے مذاکرات نازک مرحلے میں داخل ہو چکے، قطری وزیراعظم
غزہ میڈیا آفس کے مطابق 10 اکتوبر کے جنگ بندی معاہدے کے بعد اسرائیل کی سینکڑوں خلاف ورزیوں میں 373 فلسطینی ہلاک اور 970 زخمی ہوئے ہیں۔
اسرائیل کا مؤقف
اسرائیل کے چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل ایال زامیر نے کہا کہ اسرائیلی فوج کی واپسی کے بعد قائم ہونے والی یلو لائن دراصل ایک نئی سرحد اور دفاعی لائن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فوج ان لائنوں پر موجود رہے گی۔
وزیرِاعظم بنجمن نیتن یاہو نے اتوار کو صحافیوں سے کہا کہ وہ امریکی ثالثی والے جنگ بندی منصوبے کے دوسرے مرحلے میں جلد ہی قدم بڑھانے کی توقع رکھتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگلا مرحلہ زیادہ مشکل ہوگا۔
بین الاقوامی اور سفارتی کوششیں
امریکا اسرائیل اور قطر کے اعلیٰ حکام نے نیو یارک میں ملاقات کی تاکہ نازک جنگ بندی معاہدے کو مستحکم کیا جا سکے۔
مزید پڑھیں: غزہ میں شہدا کی تعداد 70 ہزار سے تجاوز کر گئی، جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی جارحیت جاری
ملاقات میں امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف، موساد کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بارنیا اور ایک سینئر قطری عہدیدار شامل تھے۔ یہ تینوں کے درمیان جنگ بندی کے بعد کی سب سے بلند سطح کی ملاقات تھی۔
غزہ میں انسانی امداد کی کمی
انسانی ہمدردی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ غزہ میں امدادی رسد ضرورت سے بہت کم ہے۔ اقوامِ متحدہ اور ریلیف حکام نے بچوں میں شدید غذائی قلت اور بڑے پیمانے پر امدادی کارروائیوں میں محدود رسائی کی نشاندہی کی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: صیہونی افواج کے ہاتھوں ماری جانے والی 10 سالہ راشا کی وصیت پر من و عن عمل کیوں نہ ہوسکا؟
انروا کی تمارا الرِفیعی نے انتباہ کیا کہ غزہ پہنچنے والی امداد میں زیادہ تر تجارتی سامان ہے جبکہ بنیادی امدادی ایجنسیاں مناسب رسائی حاصل نہیں کر رہی ہیں۔
امریکی منصوبے کا دوسرا مرحلہ
دوسرے مرحلے میں غزہ کے انتظامی امور کے لیے بندوبست اور غزہ میں بین الاقوامی استحکام فورس کے قیام کی توقع ہے۔














