گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ اگر صوبائی حکومت دہشتگردی کے خلاف ساتھ نہیں دے گی تو گورنر راج کے علاوہ اور کیا راستہ رہ جاتا ہے۔
ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت دہشتگردوں سے بات چیت کرنا چاہتی ہے۔ ان کے وزرا نے کہا کہ ہم انہیں بھتے دیتے ہیں، انہیں یہاں آباد بھی کیا، مگر دہشتگردوں سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
یہ بھی پڑھیے: کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی کے حق میں نہیں، گورنر راج ہماری خواہش نہیں، بلاول بھٹو
گورنر نے کہا کہ صوبے بھر میں حملے ہوئے جن میں سیکیورٹی فورسز نے قربانیاں دے کر عوام کو بچایا۔ مجھے نہیں لگتا کہ وزیراعلیٰ بھی اپنے علاقے خیبر میں جا کر رہ سکتے ہیں، اس لیے سیکیورٹی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
اس سوال پر کہ گورنر راج لگانے کا فیصلہ کتنا قریب ہے، انہوں نے کہا کہ ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ آخری اینٹی بایوٹک دی جا رہی ہے، اگر اس سے بھی افاقہ نہ ہوا تو آپریشن کی طرف جانا پڑتا ہے۔
فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ اگر گورنر راج لگ گیا اور پی ٹی آئی والے گورنر ہاؤس احتجاج کے لیے آئے تو میں خود ان سے نمٹ لوں گا۔ سلطان راہی کے فلمی ڈائیلاگ نہیں چل سکتے، جب ان کا ہم سے واسطہ پڑے گا تو انہیں پتا چل جائے گا کہ کن سے واسطہ پڑا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: تحریک تحفظ آئین پاکستان کا ہنگامی اجلاس، کے پی میں گورنر راج کی صورت میں مزاحمت کا عزم
انہوں نے کہا کہ صوبائی سیکریٹریٹ اڈیالا جیل منتقل ہو گیا ہے۔ سیکریٹریز پریشان ہیں کہ کس کی بات مانیں۔ ابھی تک ان کی کابینہ مکمل نہیں ہوئی، روزانہ سڑکیں بند کی جاتی ہیں۔ میری پنجاب حکومت سے گزارش ہے کہ ان کے قیدی کو اڈیالا سے کہیں اور منتقل کیا جائے تاکہ روزانہ جڑواں شہروں میں تماشا نہ بنے۔
گورنر نے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو مشورہ دیا کہ وہ صوبے کی گورننس پر توجہ دیں اور وفاق سے صوبے کے حصے کے 100 ارب روپے مانگیں، ہم بھی آپ کا ساتھ دیں گے۔ روز اڈیالا جانے کے بجائے صوبے کی ترقی پر توجہ دی جائے۔













