پاکستان کی مستقبل کی آٹو پالیسی کے حوالے سے جاری بات چیت میں بعض پالیسی سازوں اور صنعت کے اسٹیک ہولڈرز نے گاڑیوں کی درآمدات کو محدود کرنے یا مکمل پابندی لگانے کے امکان کا عندیہ دیا ہے۔
اگرچہ دسمبر 2025 تک ایسی کوئی پابندی نافذ نہیں کی گئی لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے گاڑیوں کی قیمتوں پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ کیا ایسی پابندی گاڑیوں کی قیمتیں بڑھا دے گی؟
یہ بھی پڑھیں: نئی پالیسی کے تحت آنے والی امپورٹڈ گاڑیوں کی قیمتیں کیا ہوں گی؟
پاکستان کی آٹو مارکیٹ میں مقامی اسمبل شدہ گاڑیاں اور درآمد شدہ استعمال شدہ گاڑیاں دونوں شامل ہیں۔ 2025 کے دوسرے نصف میں حکومت نے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی، جس کے تحت تجارتی درآمدات پر 40 فیصد ڈیوٹی لاگو کی گئی۔ اس کے باوجود صنعت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ استعمال شدہ درآمد شدہ گاڑیاں مقامی اسمبلرز کے لیے دباؤ پیدا کر رہی ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر درآمدات پر پابندی لگائی گئی تو مارکیٹ سے قیمت کے لحاظ سے حساس گاڑیوں کی بڑی تعداد غائب ہو جائے گی۔ اس کے نتیجے میں نئی اور استعمال شدہ مقامی گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے، کیونکہ مقامی اسمبلرز کے پاس کم مقابلے کے سبب قیمتیں بڑھانے کی گنجائش بڑھ جائے گی جبکہ درآمد شدہ پرزہ جات پر انحصار پابندی کے اثرات کو مزید بڑھا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شرح سود میں کمی، گاڑیوں کی قیمتیں کب اور کتنی کم ہوں گی؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے حکومت کو بڑے پیمانے پر مقامی مینوفیکچرنگ میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ ٹیکس اور سبسڈی کی مراعات فراہم کرنی ہوں گی، مقابلے کو فروغ دینے والے ریگولیٹری اقدامات کرنے ہوں گے اور معیار و حفاظتی ضوابط کو یقینی بنانا ہوگا۔ بصورت دیگر پابندی صارفین کے لیے مہنگائی اور مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال کا سبب بن سکتی ہے۔
موجودہ مارکیٹ اور صنعت کے ڈھانچے کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ درآمد شدہ گاڑیوں پر پابندی کی صورت میں نئی اور استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ تقریباً یقینی ہے۔ صارفین اور صنعت کے ماہرین کو اس حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور اگر پابندی نافذ کی گئی تو اس کے فوری اثرات میں قیمتوں میں نمایاں اضافہ متوقع ہے۔














