دنیا کے سب سے بڑے سولر پینل بنانے والے اداروں میں سے ایک(LONGi) کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مقامی سطح پر سولر پینل کی مینوفیکچرنگ فی الحال معاشی طور پر قابلِ عمل نہیں ہے۔
یوٹیلیٹی اسکیل سولر منصوبے بھی مختلف ساختی رکاوٹوں کا سامنا کر رہے ہیں، جو ملک کی سولر ٹرانزیشن کی رفتار سست کر سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چینی کمپنی پاکستان میں سولر پینل فیکٹری لگانے کے لیے تیار؟
(LONGi) کے سربراہ برائے پاکستان و افغانستان عثمان محمد نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ موجودہ حالات میں پاکستان میں سولر پینلز کی اسمبلی عالمی معیار کے مطابق بڑے پیمانے پر ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی سطح پر تیار کیے گئے پینل بنیادی طور پر صرف گھریلو استعمال کے لیے ہیں اور عالمی منڈی میں مسابقت نہیں کر سکتے۔
عثمان کے مطابق پیداوار کے اخراجات، مزدوری اور کوالٹی کنٹرول کے تقاضے پینل کی قیمت میں تقریباً 30 فیصد اضافہ کر دیتے ہیں جبکہ معیار بھی کچھ کم ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب تک حکومتی پالیسیاں مضبوط کاروباری بنیادیں فراہم نہیں کرتیں تب تک عالمی ادارے مقامی مینوفیکچرنگ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے سے گریز کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: سولر صارفین کے لیے سرپرائز، نئے میٹر کی شرط کیوں لگائی گئی؟
ان کا کہنا تھا کہ یوٹیلیٹی اسکیل منصوبوں کو زمین کی دستیابی اور ٹرانسمیشن کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ بڑے پلانٹس کے لیے ہزاروں ایکڑ زمین درکار ہوتی ہے جو ایک زرعی ملک میں حاصل کرنا مشکل ہے۔ اس کے علاوہ ٹرانسمیشن لائنیں اکثر کم استعمال ہوتی ہیں جس سے منصوبوں کی مجموعی لاگت بڑھ جاتی ہے۔
ان کے مطابق سرمایہ کاروں کو بجلی گھروں کی کارکردگی اور ٹرانسمیشن کی صلاحیت کے درمیان اس عدم توازن کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے جو یوٹیلیٹی اسکیل سولر کی ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اب سولر کو آپ بھول جائیں، امریکی ’انورٹر بیٹری‘ نے پاکستان میں تہلکہ مچا دیا
اس کے باوجود، پاکستان میں متبادل توانائی، خصوصاً سولر، کی طرف رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور یہ گھریلو اور تجارتی شعبوں میں بہت مقبول ہو چکا ہے۔ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ فار ایکویٹ ایبل ڈیولپمنٹ (PRIED) کے مطابق پاکستان میں سولرائزیشن تاریخی سطح تک پہنچ چکی ہے اور ملک بھر میں 33 گیگاواٹ سولر فوٹو وولٹائک (PV) پینل نصب کیے جا چکے ہیں۔
یہ بڑھتا ہوا رجحان پالیسی سازوں کے لیے قومی گرڈ اور توانائی کے مستقبل کے حوالے سے نئے چیلنجز پیدا کر رہا ہے، اگرچہ بجلی کی مجموعی کھپت تقریباً ویسی ہی ہے۔ اس کے باوجود، سستی توانائی کے اس ذریعے سے فائدہ اٹھانے کے لیے متعدد منصوبے شروع کیے جا چکے ہیں۔













