فیض حمید کو سزا، عمران خان کے خلاف 9 مئی کے کیسز بھی ملٹری کورٹ میں جاسکتے ہیں، رانا ثنااللہ

جمعرات 11 دسمبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ فیض حمید کے سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا ثبوت ملا تو عمران خان کے خلاف 9 مئی کے کیسز بھی ملٹری کورٹ میں جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: فیض حمید سزا کے خلاف آرمی کے کون سے فورمز میں اپیل کرسکتے ہیں؟ خواجہ آصف نے بتادیا

نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر رانا ثنااللہ نے کہا کہ آئی ایس آئی کا ادارہ بڑا منظم ادارہ ہے۔ کچھ کام ادارے کی ضرورت کے تحت ہوتے ہیں، جنہیں ہم اپنی سوچ کے مطابق صحیح یا غلط کہہ سکتے ہیں۔ اگر کوئی ادارہ ادارہ جاتی ضروریات کے مطابق کام کرے تو ادارہ اس کو پروٹیکٹ بھی کرتا ہے، لیکن اگر کوئی اپنے ذاتی ایجنڈے پر کام کرے تو پھر اس کی معافی نہیں ہوتی بلکہ پکڑ ہوتی ہے۔

فیض حمید کی ذمہ داریاں اور اقدامات

رانا ثنااللہ نے کہا کہ فیض حمید سینیئر ترین پوزیشن پر تھے، ڈی جی آئی ایس آئی کے بعد آرمی چیف ہوتے ہیں۔ انہوں نے جو بھی کام کیے، بتا کے کیے اور ہر جگہ ان کے دستخط موجود تھے۔ میرے خلاف ہیروئن ڈالنے کے کیس کے پیچھے بھی فیض حمید تھے، بعد میں یہ ثابت ہوا کہ یہ الزام غلط تھا۔ فیض حمید نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ ہم نے نہیں کیا۔ فیض حمید کی اس وقت کے ڈی جی نارکوٹکس کو بھی ہدایات تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’میں نے تو پہلے ہی کہا تھا‘: فیض حمید کی یہ سزا بڑے نتائج کی شروعات ہے، فیصل واوڈا

انہوں نے کہا کہ فیض حمید نے اپنے ذاتی ایجنڈے پر کام کیا، ٹاپ سٹی والے معاملے میں ادارے کی طرف سے انہیں کوئی ہدایت نہیں تھی۔ اس کے باوجود فیض حمید نے ٹاپ سٹی میں کارروائی کی اور بتایا کہ یہاں اسلحہ موجود ہے، یہاں دہشت گرد ہیں اور یہاں ایم کیو ایم لندن کی شاخ موجود ہے۔

سیاسی رابطے اور ذاتی ایجنڈا

رانا ثنااللہ نے کہا کہ فیض حمید نے اپنی ترقی کے لیے سیاسی رابطے رکھے اور براہ راست رابطے کرنے کی کوشش کی۔ اس کی کوئی معافی نہیں ہے۔ فیض حمید کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو اس کا انجام یہی ہوتا۔ جس طرح سے انہوں نے معاملات کو ڈیل کیا، اس کی کوئی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی۔ اگر وہ اپنے ذاتی ایجنڈے پر کام نہ کرتے تو اس صورتحال سے دوچار نہ ہوتے۔

9 مئی اور لانگ مارچ 

رانا ثنااللہ نے مزید کہا کہ جب جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی ہورہی تھی تو پی ٹی آئی نے لاہور سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کیا، جو راستے میں ہی ختم ہوگیا۔ آرمی چیف کی تعیناتی کے عمل پر دباؤ ڈالنے کے لیے یہ لانگ مارچ شروع کیا گیا۔ ہوسکتا ہے جب فیصلہ سامنے آئے تو اس میں بھی یہ بات سامنے آئے کہ اس سارے عمل میں جنرل فیض حمید شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: جنرل فیض حمید کے خلاف سنگین الزامات جن کا فیصلہ ہونا باقی ہے

انہوں نے آرمی چیف سید عاصم منیر کی فیملی کا نادرا ریکارڈ لیک کرنے کی خبروں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات میں کوئی ادار ملوث نہیں ہوسکتا، یہ ذاتی کام ہے۔ یہ ساری چیزیں گھوم پھر کے فیض حمید تک پہنچتی ہیں جو جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف کے عہدے تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش کا حصہ تھیں۔ ہوسکتا ہے فیصلے میں اس کا بھی ذکر موجود ہو۔

9 مئی کے مقدمات پر وضاحت

رانا ثنااللہ نے کہا کہ فیض حمید کو سیاسی سرگرمیوں پر سزا ہوئی ہے، یہ سرگرمیاں کسی سیاسی لیڈر یا جماعت کے لیے تھیں۔ وہ اپنے طور پر کوئی سیاست نہیں کر رہے تھے۔ اگر 9 مئی اور لانگ مارچ میں فیض حمید ملوث ہوتے ہیں تو دوسری طرف کی سیاسی قیادت کیوں قانون کے کٹہرے میں نہیں آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ فیض حمید کے سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا ثبوت ملا تو عمران خان کے خلاف 9 مئی کے کیسز بھی ملٹری کورٹ میں جائیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

فیض حمید اب عمران خان کے خلاف گواہی دیں گے، فیصل واوڈا

پی ٹی آئی صوبے میں ایسے حالات پیدا کر رہی ہے جو گورنر راج کی راہ ہموار کرسکتے ہیں، بلاول بھٹو

وزیراعظم شہباز شریف کی ترکمانستان کے صدر سے ملاقات، دوطرفہ تعلقات کے فروغ پر اتفاق

کورونا وبا: انسانیت بیچین تھی لیکن سمندری مخلوق نے سکھ کا سانس لیا

9 مئی فوج کے سینے میں زخم، فیض حمید کی سزا آنے والے فیصلوں کی ابتدا ہے، عمار مسعود

ویڈیو

کوئٹہ میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے سفری سہولت کا آغاز، گرین بس منصوبے میں پنک بسوں کا اضافہ

فیض حمید کو سزا، اگلا کون؟ عمران خان سے متعلق بڑی پیشگوئی

خضدار کی سلمٰی جو مزدوری کی کمائی سے جھونپڑی اسکول چلا رہی ہیں

کالم / تجزیہ

ٹرمپ کی نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹجی کا تاریخی تناظر

سیٹھ، سیاسی کارکن اور یوتھ کو ساتھ لیں اور میلہ لگائیں

تہذیبی کشمکش اور ہمارا لوکل لبرل