بنگلہ دیش کے معروف نوجوان سیاسی رہنما عثمان ہادی جو حالیہ قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئے تھے، دورانِ علاج انتقال کر گئے۔
عثمان ہادی جولائی میں حسینہ واجد حکومت کے خاتمے کا سبب بننے والی طلبہ تحریک کے نمایاں رہنما تھے اور طلبہ قائدین کے قائم کردہ سیاسی پلیٹ فارم انقلاب منچہ کے ترجمان کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔
مزید پڑھیں: ڈھاکہ، انقلاب منچہ پارٹی کے رہنما عثمان ہادی کو علاج کے لیے سنگاپور منتقل کرنے کا فیصلہ
عثمان ہادی کو گزشتہ جمعے ڈھاکا میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے زخمی کردیا تھا، جس کے بعد انہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ابتدائی سرجری کی گئی۔
بعد ازاں بہتر علاج کے لیے ہفتے کے روز انہیں سنگاپور منتقل کیا گیا، تاہم وہ آج علاج کے دوران جانبر نہ ہو سکے۔
عثمان ہادی آئندہ بنگلہ دیشی انتخابات میں آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لینے کے خواہشمند تھے۔
گزشتہ روز سنگاپور کے وزیر خارجہ نے اسپتال میں ان کی عیادت کی اور بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر محمد یونس سے ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران بتایا تھا کہ عثمان ہادی کی حالت تشویشناک ہے۔
بنگلہ دیشی حکام کے مطابق عثمان ہادی پر ہونے والے حملے کی تحقیقات جاری ہیں اور اس سلسلے میں اب تک 14 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
مزید پڑھیں: ڈھاکہ، انقلاب منچہ کے ترجمان عثمان ہادی پر حملے کے ملزمان کی شناخت ہوگئی
ادھر ڈھاکہ میں عثمان ہادی پر قاتلانہ حملے کے خلاف مظاہرین نے گزشتہ روز بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے بھی احتجاج کیا تھا۔














