سب بہت پریشان ہیں کیا ہو رہا ہے۔ حالانکہ وطن عزیز میں تو یہ کب سے جاری ہے۔ ابھی ایک دوست نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا یہ نظام درست ہے؟ اگر نہیں تو پھر نظام کیسا ہونا چاہئے؟ یہ سوال چونکہ پی ٹی آئی کے دوست نے کیا تھا تو اسے تفصیل سے جواب دینا فرض تھا۔
سسٹم یہی تھا اور یہی ہے، شخصیات تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ یہ سب نہ سدھرنے کی قسم کھا چکے ہیں یا پھر یہ سوچ چکے ہیں کہ کمپنی ایسے ہی چلے گی۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، اسی اور نوے کی دہائی میں جو کھیل ہوتا رہا وہ بھی اسی سسٹم کے تحت تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اس ملک کے لیے سیکورٹی رسک تھیں اور محترم نواز شریف لاڈلے تھے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت پر ایسے ایسے الزامات لگائے جاتے کہ عقل حیران رہ جاتی۔
کرپشن کے جو بھی الزام لگائے جاتے انہیں تسلیم کر لیا جاتا، نواز شریف اس سسٹم کے فوائد حاصل کرنے والوں میں شامل تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت پر الزامات لگائے جاتے اور ان پر یقین کرنا فرض ہوتا تھا۔ وقت نے کروٹ بدلی تو نواز شریف ملک کے لیے سیکورٹی رسک بن گئے،اب لاڈلا کوئی اور بنا۔۔ جو لاڈلا بنا اسے ایماندار ثابت کرنے کے لیے سیکورٹی رسک بننے والے پر الزامات تو لازم تھے۔
ایک ایسا دائرہ کھینچا گیا کہ جو بھی اس دائرے میں آیا وہ غدار، کرپٹ اور کافر قرار پایا، مذہب کارڈ بھی استعمال ہوا تو عدالتی سزائیں بھی نواز شریف کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے آلہ کار بنیں۔ یہ الزام بھی لگا کہ نواز شریف کے مودی سے تعلقات ہیں اور وہ بھارتی ایجنٹ ہیں۔ ایسے میں اہل شعور کہتے رہے کہ تبدیلی صرف ووٹ کے ذریعہ لائی جائے تو بہتر ہوتی ہے مگر کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔ پانامہ پیپرز سے معاملہ شروع ہوا۔۔ پھر اس کے بعد کیس پر کیس بنتے رہے۔
عدالتی فیصلوں کا حال یہ تھا کہ کیس تھا پانامہ پیپرز کا۔ اس میں سے کچھ نہیں نکلا تو نواز شریف کو اقامہ رکھنے اور بیٹے سے ممکنہ تنخواہ وصول نہ کرنے پر سزا دے دی گئی جبکہ پٹیشن میں یہ بات تھی ہی نہیں۔ سزا دے کر نااہل کرنے کے بعد چیف جسٹس نے مختلف تحقیقاتی اداروں سے ہیرے اکٹھے کر کے جے آئی ٹی بنائی اور عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ جے آئی ٹی کی نگرانی بھی ایک جج کو سونپ دی گئی تاکہ کوئی کمی نہ رہ جائے۔ نواز شریف چونکہ کافی عرصہ سے دیکھ رہے تھے کہ ایک نیا لاڈلا تخت نشین کرنے کے لیے ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔ ڈرامہ کے مصنف، ہدایتکار، پروڈیوسر اور کردار بھی معلوم تھے مگر احتجاج ایک طریق کار کے مطابق سیاسی انداز میں کیا گیا۔
نواز شریف کے بعد ان کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن صفدر، خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق، احسن اقبال، خواجہ آصف، حنیف عباسی اور انجینئر قمر الاسلام سمیت بہت سے لوگ جیلوں میں ڈال دئیے گئے۔ نواز شریف اور ان کے ساتھی چاہتے تو وہ بھی پرتشدد احتجاج کی راہ اختیار کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
حالات پھر پلٹا کھاتے ہیں اور لاڈلا عمران بھی لاڈلا نہیں رہتا۔ اس مرتبہ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ جنہیں غیر سیاسی ہونا چاہئے تھا اور واقعی غیر سیاسی ہو گئے۔ ان کے نیوٹرل یا غیر سیاسی ہونے پر عمران خان بپھر گئے اور بات بد زبانی سے بھی آگے نکل گئی۔ مگر آفرین ہے پی ٹی آئی کے لیے منصوبے بنانے والوں پر کہ انہوں نے چار سال کی ناکامی سے عوام کی نظریں ایسے ہٹائیں کہ کمال ہو گیا، گوئبلز کے فارمولہ کے مطابق اتنا جھوٹ بولا گیا کہ وہ سچ ہو گیا۔
لوگوں نے چار سالہ صفر کارکردگی کو چھوڑ کر سائفر کے بیانیہ پر اعتبار کیا، یہ اعتبار بھی کیا کہ یہ سب کچھ امریکا کے کہنے پر ہوا ہے۔ نعرہ مشہور ہو گیا کہ ہم کوئی امریکا کے غلام ہیں کہ جو وہ کہیں گے ہم مان لیں گے، سفر وہاں سے شروع ہوا اور آج امریکا سے ہی عمران خان کو واپس لانے کے لیے آوازیں سنائی دے رہی ہیں، پاکستان کے عزیز ترین دشمن زلمے خلیل زاد روز پاکستان کی صورتحال پر کڑھتے ہوئے وطن عزیز کے تمام مسائل کا حل عمران خان کو قرار دیتے ہیں۔
سائفر کا بیانیہ امریکا سے شروع ہونے کے بعد جنرل باجوہ تک اور پھر ان سے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی تک پہنچ چکا ہے مگر ان کا جو فرقہ بن چکا ہے وہ کہتا ہے کہ خان صاحب نے جو بھی کہا ہے درست کہا ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکن اینکر حضرات بھی جھوٹ پھیلانے کی مشینیں ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں نواز شریف کی فائلیں دکھا کر بتایا گیا تھا کہ وہ چور ہے۔ آج ہم جنگ لڑ رہے ہیں تو اس جنگ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ تو سوال یہ ہے حضور کہ آپ کا کام تو کرنٹ افئیرز کے پروگرام کرنا تھا، آپ جنگ لڑنے کہاں پہنچ گئے؟۔ پھر کل آپ کو جب نواز شریف کے خلاف فائلیں دکھائی گئیں تو آپ نے اعتبار کیوں کیا ؟۔ پھر اس وقت اعتبار کیا تو آج جب وہ خان صاحب کی کرپشن کی فائلیں دکھا رہے ہیں تو آپ کو ان پر اعتبار کیوں نہیں ہے؟۔
اس لیے حضور میں تو بار بار ہاتھ جوڑ کر یہ کہتا رہا ہوں اور آج بھی کہہ رہا ہوں کہ کچھ نہیں بدلا۔۔ وہ ہی حالات ہیں وہ ہی الزامات ہیں مگر شخصیات تبدیل ہو چکی ہیں۔۔