چینی توانائی ماہر نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں غیر مرکزی (ڈی سینٹرلائزڈ) سولر پاور کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تنصیب قومی بجلی کے نظام پر اضافی دباؤ ڈال رہی ہے اور اُن صارفین کے لیے بجلی کے نرخ بڑھا رہی ہے جو سولر نظام نصب کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف باتھ سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر یی شیان سن نے کہا کہ پاکستان سولر آلات کی درآمد پر 10 ارب امریکی ڈالر سے زائد خرچ کر چکا ہے تاہم اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں ملک میں کوئی خاطر خواہ صنعتی یا معاشی فوائد پیدا نہیں ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیں: سولر صارفین کے لیے بڑا دھچکا، نیپرا کی نئی تجاویز سے کتنا نقصان ہو گا؟
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 3 برسوں کے دوران چینی کمپنیوں نے بیرونِ ملک بالخصوص جنوب مشرقی ایشیا میں سولر مینوفیکچرنگ کے شعبے میں 200 ارب امریکی ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے جبکہ پاکستان اس سرمایہ کاری سے تقریباً محروم رہا ہے۔
ان کے مطابق مناسب پالیسی فریم ورک اور سیاسی استحکام کی صورت میں پاکستان کم لاگت لیبر اور وسیع مقامی منڈی کے باعث صاف توانائی کی صنعت کے لیے ایک پرکشش مقام بن سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں سولر انقلاب، اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری اور لاکھوں لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع
وزارتِ صنعت و پیداوار کے نمائندے آفتاب خان نے کہا کہ سولر ٹیکنالوجی کے مقامی فروغ کے لیے پاکستان کی ٹیکنالوجی تیاری کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا اور ترجیحی شعبوں کا تعین کرنا ناگزیر ہے۔
چائنا انرجی انجینئرنگ گروپ کے سینئر مشیر ڈاکٹر حسن داؤد بٹ نے کہا کہ طویل المدتی منصوبہ بندی کی کمی نے پاکستان کے توانائی شعبے کو نقصان پہنچایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا پاکستان میں سولر پینل کی مینوفیکچرنگ ممکن ہے؟
انہوں نے خبردار کیا کہ بے تحاشا سولر درآمدات بجلی کے نظام کے استحکام کو متاثر کر رہی ہیں اور اصلاحات پر مبنی سی پیک فریم ورک کے تحت گرین خصوصی اقتصادی زونز کے لیے واضح روڈ میپ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔














