پاکستان کے معروف ڈرامہ نگاراصغر ندیم سید جن کے ڈرامے ہوائیں،چاند گرہن،نجات اور غلام گردش لازاول ڈرامے تصور کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے حال ہی میں دیے جانے ایک انٹر ویو میں پاکستان فلم انڈسٹری کے زوال اور ماضی اور حال کے ڈراموں میں فرق کے بارے میں بات کی۔
معروف ڈرامہ نگار نے بتایا کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کے زوال کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔وہ 10سال فلم سنسر بورڈ کے ممبر رہے۔
انہوں نے کہا جب وہ فلم سنسر کر رہے ہوتے تھے تو فلم کا سبجیکٹ بے حدہ اور کہانی عجیب وغریب ہوتی تھی۔
جب وہ فلم کی ایڈیٹنگ کر تے تھے تو پروڈیوسر ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہتا تھا کہ مجھے لوٹا گیا ہےاور مجھ سے پیسے نکلوا کر یہ فلم بنائی ہے،خدا کے لیے اس کی ایڈیٹنگ کرکے فلم میرے حوالے کر دیں میں چلا لوں گا چاہے ایک ہی دن کیوں نہ چلے۔
اصغر ندیم نے بتایا کہ اس وقت سرمایہ دار کو دھوکہ دیا جا رہا تھا۔ماضی میں جو بری فلم ایک بار مشہور ہو جاتی تھی اس کے چربےشروع ہو جاتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ وہ وقت ہے جب لاؤڈ سبجیکٹس کو لیا جانے لگا،پنجابی سینما کو برباد کیا گیا۔
مصنف نے بتایا کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کے زوال کی اصل وجہ یہ ہے کہ جو سرمایہ دار آ رہا تھا اپنے سرمائے کو چھپانے کے لیے آ رہا تھا اور بلیک منی لے کر آ رہا تھا۔اسی کی بنیاد پر اس کا شوق فلم بنانا نہیں تھا کچھ اور تھا۔
ماضی اور حال کے ڈراموں میں فرق کے حوالے سے بات کرتے ہوئےاصغر ندیم سید کا کہناتھا کہ ماضی میں پاکستان کے سرکاری چینل پی ٹی وی کے مینڈیٹ میں ایجوکیشن، انفارمیشن اور انٹرٹینمنٹ تھی۔
یہ سب چیزیں ایک پیکج کے اندر پی ٹی وی کو دینا ہوتا تھیں۔اس وجہ سے اس وقت جو مصنف پی ٹی وی نے لیے بہت سوچ سمجھ کر لیے،ان سب مصنفوں کا تعلق انگریزی یا اردو ادب سے ہوا کرتاتھا۔
پی ٹی وی کو معلوم ہوتا تھا کہ یہ مصنف لکھنے کی قدر کو جانتے ہیں۔اصغر ندیم نے بتایا کہ اس وقت کے مصنف کسی نہ کسی طرح اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کا ہنر جانتے تھے لیکن آج پی ٹی وی کا وہ مینڈیٹ نہیں رہا۔
شاعر اصغر ندیم کا کہنا تھا کہ آج پرائیویٹ چینلز کا بھی ایک ہی مینڈیٹ ہے پیسہ لگانا اور پیسہ کمانا۔انہوں نے بتایا کہ اب مارکیٹ مینجرزکا راج ہے ماضی میں پی ٹی وی پر تخلیقی لوگوں کا راج ہوا کرتا تھا۔
ماضی اور حال کے ڈراموں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اصغر ندیم نے مزید بتایا کہ
ہمارے ہاں ڈرامہ پہلے سے اچھا نہیں ہوا ،کمرشلی اس میں سبجیکٹس زیادہ نہیں ہیں۔آج کے ڈراموں میں پاکستانیوں کی نمائندگی زیادہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ڈراموں کی کہانی صرف لڑکی اور لڑکے کے گرد گھومتی ہے یا ساس بہو کی کہانی ہوتی ہے،ڈراموں میں لڑکی کا مقصد سوائے شادی کے اور کچھ نہیں دکھایا جاتا۔
ڈرامہ نگار نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری لڑکیاں نوکری کے لیے پڑھ رہی ہیں۔کبھی ان کے بارے میں کوئی ڈرامہ نہیں بنایا گیا۔لڑکیوں کو نوکری کیسے ملے گی یہ مسئلہ نہیں دکھایا جاتا،لڑکی کو مارکیٹ جاتے ہوئے کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ڈالر کیسے گر رہا ہے،ہماری معیشت نیچے جارہی ہے،ہمار ی سرمایہ کاری کیوں نہیں آ رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ مسائل ہیں جو آج ہماری زندگی کو گھیرے ہوئے ہیں لیکن ان پر کوئی ڈرامہ نہیں بنا رہا۔
اصغر ندیم نے بتایا کہ ماضی کے ڈرامے گلیاں اور سڑکیں ویران کر دیا کرتے تھے کیونکہ ان ڈراموں کی ٹارگٹ آڈینس فیملی ہوا کرتی تھی۔لیکن اب ٹارگٹ آڈینس تبدیل ہو چکی ہے اسی وجہ سے خواتین،مرد اور بچے الگ الگ ہی پروگرامز دیکھتے ہیں۔