پاکستان میں شمسی توانائی (سولر) کو سستی، قابلِ اعتماد اور پائیدار متبادل قرار دیا جا رہا ہے مگر سوال یہ ہے کہ اگر سولر واقعی فائدہ مند ہے تو عام پاکستانی اس سے کیوں محروم ہے؟ بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافے اور سولر پینلز کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے باوجود کم آمدنی والے گھرانے اور چھوٹے کاروبار آج بھی شمسی توانائی تک رسائی حاصل نہیں کر پا رہے۔
یہ بھی پڑھیں: سولر انقلاب: سستی بجلی یا مہنگا نظام؟ ماہرین نے وارننگ دےدی
ایک تازہ مطالعے کے مطابق اصل مسئلہ ٹیکنالوجی یا منافع کا نہیں بلکہ استطاعت اور فنانسنگ کی رکاوٹوں کا ہے جس نے پاکستان کے سولر انقلاب کو طبقاتی تقسیم میں بدل دیا ہے۔
مطالعے میں نشاندہی کی گئی ہے کہ سولر اپنانے کے حوالے سے ایک واضح برابری کا خلا موجود ہے جہاں بڑی تعداد میں ایسے گھرانے اور چھوٹے کاروبار موجود ہیں جو شمسی توانائی اختیار کرنے کی خواہش رکھتے ہیں مگر ابتدائی سرمایہ کاری، قرض تک محدود رسائی اور سخت ضمانتی شرائط کے باعث عملی طور پر اس سے محروم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سولر صارفین کے لیے بری خبر: نیپرا نے نیٹ میٹرنگ قوانین تبدیل کر دیے، نیٹ بلنگ نظام متعارف
مطالعے کے مطابق ابتدائی مرحلے میں سولر توانائی اپنانے والے زیادہ تر خوشحال گھرانے اور بڑے صنعتی و تجارتی ادارے تھے جو خود سرمایہ فراہم کرنے یا روایتی بینکاری ذرائع سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان طبقات نے سولر کے زیادہ تر فوائد سمیٹ لیے جبکہ کم آمدنی والے گھرانے اور چھوٹے کاروبار پیچھے رہ گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2022 کے توانائی بحران اور اس کے بعد پیدا ہونے والے معاشی دباؤ نے پاکستان میں تقسیم شدہ شمسی توانائی کی جانب ایک غیر معمولی رجحان کو جنم دیا جس نے ملک کے توانائی کے ڈھانچے کو نمایاں طور پر تبدیل کیا۔ ابتدائی طور پر صنعتی اور تجارتی صارفین نے بجلی کی فراہمی کے تسلسل اور لاگت میں کمی کے لیے سولر نظام اختیار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں سولر انقلاب، اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری اور لاکھوں لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع
مطالعے کے مطابق 2023 سے 2025 کے دوران بیٹری پیک کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے بعد سولر اور بیٹری پر مشتمل ہائبرڈ نظام اچھی آمدن والے گھرانوں اور کاروباری اداروں کے لیے قابلِ عمل ہو گئے جس سے مہنگے شام کے اوقات میں توانائی کے بہتر انتظام اور بچت ممکن ہوئی۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ عالمی سطح پر سولر پینلز کی قیمتوں میں بڑی کمی کے باوجود تنصیب کی لاگت اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ ابتدائی سرمایہ کاری بہت سے ممکنہ صارفین کے لیے ناقابلِ برداشت ہے جس کے باعث وہی طبقات سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جو بجلی کے بڑھتے نرخوں سے شدید دباؤ کا شکار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں کون سی سولر ٹیکنالوجی سب سے کار آمد؟
مطالعے کے مطابق پاکستان کی تقسیم شدہ سولر مارکیٹ میں صرف تین بڑے شہروں میں تقریباً 800 ارب روپے کی غیر استعمال شدہ قرضہ جاتی گنجائش موجود ہے تاہم مالیاتی ڈھانچے کی کمزوریوں کے باعث لاکھوں گھرانے اور چھوٹے کاروبار اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔













