سینیئر سیاستدان و رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے نام کھلا خط لکھ کر کچھ اہم وضاحتیں مانگ لیں، اور کہاکہ پارٹی ڈسپلن کا مطلب جھوٹ بولنا نہیں ہوتا اور وفاداری کا مطلب غلط کو درست کہنا نہیں ہوتا۔
شیر افضل مروت نے کھلا خط جاری کرتے ہوئے کہاکہ وہ کسی شکوے، معذرت یا دباؤ کے شکار ہونے کے تاثر کے لیے یہ تحریر نہیں لکھ رہے بلکہ پی ٹی آئی کے کارکنان اور عام پاکستانیوں کو دعوتِ فکر دینے کے لیے یہ خط تحریر کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: شیر افضل مروت پی ٹی آئی میں واپس آنے کے لیے تیار، شرط بھی بتادی
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 2 سال سے وہ اور ان کا خاندان ایک منظم اور مسلسل کردارکشی کی مہم کا سامنا کر رہے ہیں، جس میں سینکڑوں وڈیوز، پروگرامز اور سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے ان کی نیت، وفاداری، پیشہ ورانہ دیانت اور ذاتی زندگی کو نشانہ بنایا گیا۔
— کھلا خط
میں یہ خط کسی شکوے، معذرت یا کمزوری کے اظہار کے طور پر
نہیں لکھ رہا، اور نہ ہی یہ اس تاثر کے لیے ہے کہ میں کسی دباؤ یا خوف کا شکار ہو گیا ہوں۔ یہ تحریر صرف اور صرف پی ٹی آئی کے کارکنان اور عام پاکستانیوں کو دعوتِ فکر دینے کے لیے ہے کہ وہ گزشتہ دو برس کے واقعات کو تعصب،…— Sher Afzal Khan Marwat (@sherafzalmarwat) December 24, 2025
شیر افضل نے کہا کہ وہ آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کا قصور کیا تھا اور کسی نے بھی یہ سوال نہیں اٹھایا کہ الزامات کی بنیاد کیا ہے۔
خط میں کہا گیا کہ بغیر کسی ٹھوس ثبوت یا شفاف فورم کے، انہیں متعدد الزامات کے ذریعے ہدف بنایا گیا، جن کے بارے میں نہ کوئی تحریری الزام نامہ دیا گیا اور نہ جواب کا حق ملا۔
شیر افضل نے اسے ’ہجوم کی عدالت‘ قرار دیا، جہاں فیصلہ پہلے اور ثبوت بعد میں تلاش کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا جرم 9 مئی کے بعد عمران خان کے ساتھ کھل کر کھڑا ہونا تھا، جب پارٹی قیادت عملی طور پر منظر سے غائب تھی اور وہ پارلیمان، میڈیا اور عدالتوں میں پارٹی کا دفاع کر رہے تھے۔ لیکن 11 اپریل 2024 کے بعد، پارٹی قیادت کے دوبارہ متحرک ہونے پر، اختلافِ رائے کو اختلافِ وفاداری میں تبدیل کر کے انہیں عوامی طور پر تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔
شیر افضل نے بتایا کہ انہیں 3 مرتبہ پارٹی سے نکالا گیا، اور 2 پہلی برطرفیوں کے بعد خود عمران خان نے انہیں سازش کا شکار قرار دیا۔ تاہم تیسری بار دوبارہ بغیر ثبوت الزامات دہرائے جانے پر انہوں نے پارٹی میں واپسی کی کوشش ترک کردی۔
خط میں مزید کہا گیا کہ پارٹی کے بیشتر رہنماؤں سے ان کا کوئی ذاتی اختلاف نہیں تھا، اختلاف صرف چند افراد کی جانب سے کیے گئے عوامی بیانات کی وجہ سے پیدا ہوا، جس سے ان کے اخراج کی راہ ہموار ہوئی۔
شیر افضل مروت نے سوال کیا کہ اختلاف کی صورت میں اندرونی فورمز کیوں استعمال نہیں کیے گئے اور عوامی سطح پر ذلیل کرنا سیاسی اخلاقیات کے دائرے میں کیسے آتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ ایک وکیل ہیں اور اپنے دفاع کا حق رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ پارٹی ڈسپلن کا مطلب جھوٹ بولنا نہیں ہوتا اور وفاداری کا مطلب غلط کو درست کہنا نہیں ہوتا۔ انہوں نے ماضی کے اسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ، غلط پالیسیوں، میرٹ کے خلاف فیصلوں اور ناقص حکمتِ عملی کی حمایت کرنے سے انکار کیا۔
خط میں اسلامی، اخلاقی اور انسانی اصولوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ کردار کشی نہ سیاسی خدمت ہے نہ آزادی اظہار، بلکہ یہ اخلاقی اور قانونی طور پر غلط عمل ہے۔
شیر افضل مروت نے کہاکہ خط کسی خوف یا پسپائی کا اظہار نہیں بلکہ اپنی موجودہ زندگی میں مطمئن ہیں اور سچ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
’اب جبکہ میں پی ٹی آئی کا حصہ نہیں رہا، یہ وقت ہے کہ سنجیدگی سے خود احتسابی کی جائے۔ ذرا سوچیے، اس محاذ آرائی سے پارٹی کو کیا ملا؟ کیا کارکن کا حوصلہ بڑھا یا ٹوٹا؟ کیا اختلافِ رائے کی گنجائش وسیع ہوئی یا پارٹی کو ایک ایسے کلٹ کا تاثر ملا جہاں سوال جرم اور دلیل دشمنی بن جاتی ہے؟‘
مزید پڑھیں: بانی پی ٹی آئی عمران خان نے شیر افضل مروت کو پارٹی سے کیوں نکالا؟
انہوں نے لکھا کہ حقیقت یہ ہے کہ اس رویے نے لوگوں کا حوصلہ توڑا، کنفیوژن پھیلائی، اور بہت سے مخلص کارکنوں کو یہ احساس دیا کہ سچ بولنے کی قیمت کردارکشی ہے۔ یہ نقصان کسی ایک فرد کا نہیں، بلکہ پارٹی کے بیانیے، اخلاقی برتری اور عوامی اعتماد کا نقصان ہے۔
انہوں نے کہاکہ میں آج بھی یہی کہتا ہوں کہ اختلاف دشمنی نہیں ہوتا، تنقید غداری نہیں ہوتی، اور سیاسی جماعتیں سوال سے مضبوط ہوتی ہیں، کلٹ بن کر نہیں۔ غلط کو غلط اور درست کو درست کہنا میرا مزاج ہے، اور میں اسے بدل نہیں سکتا، خواہ اس کی کوئی بھی قیمت ہو۔














