پی آئی اے کی نجکاری ، چند اہم پہلو

جمعرات 25 دسمبر 2025
author image

عامر خاکوانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

  اس کالم کو پڑھنے والے قارئین کے لیے سب سے پہلے تو یہ وضاحت کہ خاکسار کا پی آئی اے کی نجکاری کے فیصلے کو سازش قرار دینے کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ ہی میرے پاس کوئی ایسے اعداد وشمار ہیں جس سے پتا چلے کہ ملک وقوم کو  عظیم نقصان پہنچا ہے۔ دوسری طرف میں ہرگز یہ نہیں کہوں گا کہ یہ عظیم فیصلہ ہے جس پر قوم خوشی منائے اور اب اس سے معیشت سنبھل جائے گی۔ ناچیز کی رائے میں جو چیز جیسے ہے، ویسی ہی بیان کرنی چاہیے، مبالغے اور غیر ضروری کمی بیشی سے ہٹ کر ۔

اس ڈیل کے حوالے سے چند بنیادی  سوال اٹھائے جا رہے ہیں جیسے :

 پی آئی اے کم پیسوں میں فروخت کی گئی، جس کنسورشیم نے یہ ڈیل کی انہیں ہی کیوں چنا گیا؟ جب 135 ارب میں فروخت ہو رہی ہے تو پاکستان کو صرف 10 ارب کیوں مل رہے؟ پی آئی اے کی تو بیرون ملک سینکڑوں ارب کی جائیدادیں ہیں وہ بھی اتنی کم قیمت پر فروخت کر دی گئیں؟ قومی وقار کا سودا ہوگیا، وغیرہ وغیرہ۔

  ان سوالات کا جائزہ لیتے ہیں، یہ سب اپنی جگہ اہم ہیں، عام آدمی کی سوچ کو ظاہر کرتے ہیں، مگر میرے نزدیک اہم سوال یہ ہے کہ اگر پی آئی اے فروخت نہ کی جاتی تو وہ ہر سال پاکستان کو کتنے ارب میں پڑتی؟ مزید یہ کہ اگر پی آئی اے 10 سال پہلے فروخت ہوجاتی تو پاکستان کی کتنی بچت ہوجاتی؟ کتنی بڑی رقم ان گزرے برسوں میں اس سفید ہاتھی پر برباد نہ ہوتی ۔

فروخت یا  بوجھ سے جان چھڑانا 

  آگے بڑھنے سے پہلے ایک بنیادی نکتہ سمجھ لیا جائے تو آسانی ہوگی۔ دراصل پی آئی اے فروخت نہیں کی گئی بلکہ حکومت یا ریاست پاکستان نے اس کے خسارے کے بوجھ سے نجات پائی ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ ریاست پاکستان اتنی غریب یا کمزور ہو چکی تھی کہ اب وہ قومی ادارے بیچ کر گزارا کرے گی۔ نہیں ایسا نہیں۔ پی آئی اے کی فروخت سے ملنے والے 135 ارب روپے اگر پورے کے پورے خزانے میں چلے جائیں، تب بھی ریاست امیر نہیں ہو جائے گی۔ ہمارا تو سالانہ ترقیاتی بجٹ ہی ایک ہزار ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ سرکاری سالانہ  بجٹ میں سوا سو، ڈیڑھ سو ارب روپے کی اوقات ہی کیا ہے۔

پی آئی اے کی نجکاری ن لیگ حکومت کرتی یا یہ کام تحریک انصآف حکومت کے دور میں ہوتا، یہ بات طے تھی کہ فروخت کمائی کے نقطہ نظر سے نہیں ہو رہی بلکہ ایساصرف اس لیے کیا جا رہا ہے کہ پی آئی اے جیسے غیر منافع بخش ادارے کا بوجھ اتار پھینکا جائے۔  جس پر ریاست کو ہر سال 30-40 ارب روپے خواہ مخواہ خرچ کرنا پڑ جاتا ہے۔

ایک روپے میں فروخت کی تجویز

مجھے یاد ہے کہ 10-11 برس قبل ایک قومی روزنامہ میں کالم شائع ہوا، ایک ماہر معیشت تھے، انہوں نے تجویز دی کہ حکومت پاکستان کو خسارے میں چلنے والے اداروں سے جان چھڑا لینی چاہیے تاکہ ان پر ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے جمع ہونے والے اربوں روپے خرچ نہ کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک روپے کی علامتی رقم میں پی آئی اے بیچ دی جائے۔ یہ بات پڑھ کر حیرت ہوئی۔ مجھے یاد ہے کہ سوشل میڈیا اس وقت اتنا فعال نہیں تھا، تاہم اس کالم کا خاصا مذاق اڑایا گیا۔

  ہم اس نکتے کو تب سمجھ ہی نہیں سکے۔ دراصل ایک خاص قسم کا رومانٹسزم تب تک میرے جیسے لکھاریوں میں بھی موجود تھا کہ ریفارمز لانی چاہییں، ڈوبتے اداروں کو کامیاب بنایا جائے وغیرہ وغیرہ۔ اس کےساتھ ساتھ کسی بھی حکومت کی گئی بڑے ڈیلز کو تشویش اور بدگمانی کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ آپ سب کو یاد ہوگا کہ اچھی بھلی اسٹیل ملز فروخت ہو رہی تھی، میڈیا اور عوامی حلقوں نے شور مچایا اور پبلسٹی کے جنونی  چیف جسٹس افتخار چودھری نے وہ ڈیل رکوا دی۔ کوئی حساب لگائے کہ تب سے آج تک کتنے پیسے اسٹیل ملز پر خرچ ہوچکے ہیں؟ اسی افتخار چودھری نے ریکوڈک ڈیل ختم کر دی جس پر پاکستان کو کئی سال بعد سہی، مگر عالمی عدالت سے اربوں ڈالر  جرمانہ ہوا اور ہمیں اسی کمپنی کی منت سماجت کر کے انہیں ریکوڈک دینا پڑا۔

  عمران خان دور میں اسٹیل ملز کے چند ہزار ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ ہوا تو پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت نے بڑا شور مچایا۔ دلیل یہ دی کہ 6 یا 8 ہزار لوگ بے روزگار ہوجائیں گے۔ یعنی یہ  6 یا 8 ہزار لوگ گھر بیٹھے مفت میں 10-12 سال سے تنخواہیں لے رہے ہیں، وہ ٹھیک ہے۔ انہیں فارغ نہ کیا جائے ۔ ایسا کہاں ہوتا ہے بھائی؟ کیا زرداری خاندان یا پیپلزپارٹی کا کوئی رہنما اپنے ذاتی کاروبار میں ایسا کر سکتا ہے کہ کوئی کام کرائے بغیر اتنے ملازمین کو مفت میں تنخواہ دیتے رہیں؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

پی آئی اے نہیں بلکہ ہم خود ناکام ہوئے ہیں

ہمارے بعض دوستوں کا یہ خیال رہا ہے کہ کسی قومی ادارے کو گھاٹے میں بیچ ڈالنا دراصل ہماری ناکامی کی دلیل ہے۔ ہمی یہ ٹاسک بطور چیلنج لینا چاہیے اور ان بیمار قومی اداروں کو پرافٹ ایبل بنانا چاہیے ۔ بات یقینی طور پر خوبصورت ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ من حیثیت قوم ہم بعض چیزوں میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک گورننس ہے اور اداروں کو چلانے کی صلاحیت بھی۔

اب یہ بات طے ہوچکی، کرسٹل کلیئر ہے کہ ہماری کوئی بھی حکومت کسی ڈوبے ہوئے ادارے کو دوبارہ سے کھڑا نہیں کر سکتی۔ وہ صرف اس کی تعمیر نو اور بحالی کے نام پر 50-100 ارب مزید برباد کر سکتی ہے اور اس تعمیر نو میں بھی کئی اہم لوگوں کے رشتے دار بہت کچھ مال بنا لیتے ہیں۔ اس لیے اب یہی بہترین فیصلہ لگتا ہے کہ ان اداروں سے جان چھڑا لی جائے ، چاہے کم پیسے ملیں، مگر ان کا بوجھ تو ہمارے کاندھوں سے ہٹے۔ ہم وہ 50-100 ارب روپے عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کریں، یا یہ توفیق نہ ہو تو کم از کم اتنے پیسوں کے نئے ٹیکس تو عوام پر نہیں لگیں گے۔

جنہوں نے ادارے ڈبوئے ان کا احتساب کیوں نہیں؟

ہمارے بعض صحافی دوست یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ادارے تو چلو خیر پرائیوٹائز کر دیے گئے، مگر جنہوں نے یہ ادارے تباہ کیے، ان کا احتساب تو ہونا چاہیے۔ بات تو درست ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کرے گا کون؟ انگریزی  محاورے کے مطابق بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟

اس لیے کہ پی آئی اے جیسے ادارے کی تباہی 1-2 سال کا نہیں بلکہ کم از کم 30 برس کا قصہ ہے۔ اس میں پاکستان کی بڑی تینوں جماعتیں شامل ہیں۔ اس میں سول ملٹری حکمران سب آتے ہیں۔ جنرل مشرف کا بھی حصہ ہے، نواز شریف، آصف زرداری کا بھی اور عمران خان کی حکومت بھی ذمے دار ہے کہ ان کے ایک وزیر کے بیان نے پی آئی اے کی کمر توڑ دی تھی۔ سوال وہی ہے کہ جو خود اس تباہی کے ذمہ دار ہیں، وہ اپنا احتساب کیسے کریں گے؟

  ویسے احتساب اور ادارے ڈبونے کا سوال اب فروخت کے وقت اچانک کیوں؟ پی آئی اے تو 15-20 برس سے گھاٹے میں جا رہی ہے۔ صرف یہ نہیں ، ہمارے تمام سرکاری ادارے تباہ حال ہیں، خسارے کا شکار ہوچکے، ان کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ یہ بات آج  پوری طرح آشکار ہے تو احتساب تو ہمہ گیر قسم کا بنتا ہے سب کا۔ بے رحمانہ احتساب۔ افسوس کہ ایسا ہوگا نہیں، ہم سب جانتے ہیں۔

پی آئی اے کی ڈیل پر کئے گئے اعتراضات        

ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ پی آئی اے اتنے کم پیسوں میں کیوں فروخت کی گئی؟ جواب سادہ ہے کہ پی آئی اے کو زیادہ پیسوں میں کوئی خریدنے کو تیار نہیں۔ کتنی بار تو کوششیں ہوچکیں، بولی بھی ایک بار کرائی گئی، مگر اتنی کم بولی دی گئی کہ اس عمل کو ختم کر دیا گیا۔ ویسے اس وقت بھی ملک کا کوئی بھی بزنس گروپ یا کنسورشیم پی آئی اے کی بولی جیتنے والے عارف حبیب کنسورشیم سے بہتر آفر لگا کر یہ بولی لے سکتا تھا۔ کس نے روکا تھا؟

لکی سیمنٹ  والے قریب ترین حریف تھے، وہ زیادہ پیسے دینے پر رضامند ہوجاتے تو پی آئی اے ان کی ہوجاتی۔ جیتنے والا گروپ یقینی طور پر زیادہ بااثر اور وسیع تعلقات کا حامل ہے، لیکن نیلامی تو اوپن ہوئی تھی، دوسرے نمبر پر رہنے والا اگر اپنی بولی بڑھا لیتا تو وہ جیت لیتا۔ یہ تو سیدھی سادی دو جمع دو 4 والی بات ہے۔

دوسرا اعتراض یہ بھی کیا گیا کہ اگر غیر ملکی خریدار شامل کیے جاتے تو شاید زیادہ رقم آفر ہوتی۔ میرے خیال سے یہ الزام تو بودا اور فضول ہے۔ پی آئی اے ایک قومی ادارہ رہا ہے اور اس کی بہرحال ایک خاص قسم کی اہمیت اور حیثیت ہے۔ اسے پاکستانی بزنس مینوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے ۔ مجھے یاد ہے کہ جب زرداری حکومت میں اسٹیل ملز فروخت ہو رہی تھی، تب یہ سازشی تھیوری مشہور ہوئی کہ دراصل یہ مل بھارتی بزنس مین لکشمی مٹل ہے جس نے اپنے کسی فرنٹ مین کے ذریعے یہ سودا کیا ہے۔ اس پر بڑا ردعمل آیا تھا اور پھر سپریم کورٹ نے یہ ڈیل منسوخ کرائی تو پیچھے کہیں یہ بات بھی شامل تھی۔

اب اگر پی آئی اے کو کوئی غیر ملکی گروپ خرید لیتا تو کتنا شور مچتا؟ یہی لوگ جو اب کہہ رہے ہیں کہ باہر سے بزنس مین کیوں نہیں بلوائے، کل کو یہی شور مچاتے کہ پی آئی اے کو کسی انڈین بزنس گروپ نے اپنے فرنٹ مینوں سے خرید لیا اور یہ پاکستان اور پاکستانیوں کی بڑی بے عزتی ہوئی ہے، وغیرہ وغیرہ۔

اس لیے پاکستان کے مقامی بزنس مین گروپ کا سامنے آنا تو اچھی بات ہے۔ یہ سب معروف لوگ ہیں، کوئی اسکول نیٹ ورک چلا رہا ہے، کسی کی بڑی پراپرٹی اسکیم اور دیگر بزنس وغیرہ ہیں تو کوئی کھاد بنانے کے کارخانے کا مالک ہے۔ یہ سب مگر جانے پہچانے چہرے ہیں، خالص پاکستانی پراڈکٹ۔

 3-4 دوسرے اعتراضات بھی سامنے آئے ہیں۔ یہ کالم مگر طویل ہوگیا ہے، اس موضوع پر ایک اور نشست ہونی چاہیے۔ پارٹ ٹوبھی آنا چاہیے ۔

کالم کے دوسرے حصے میں ہم جائزہ لیں گے کہ کیا دنیا میں بہت کم قیمت پر اور حتیٰ کہ صرف ایک ڈالر میں بھی کوئی ادارہ فروخت ہوا ہے؟ ہوا تو کیا وجہ تھی؟ یہ بھی کہ اگر دنیا میں بڑے ادارے فروخت کرتے وقت اس کے خسارے یا قرضوں کا بوجھ خریدار پر ڈالا جاتا ہے تو پھر پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوا؟ سب سے اہم یہ کہ کیا نج کاری کا یہ فیصلہ ٹھیک ہوا یا یہ بڑی تباہ کن غلطی ہے؟ ان سب پر ان شااللہ کل بات کرتے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

قومی ایئرلائن کی پرائیوٹائزیشن، فوجی فرٹیلائزر کی شمولیت کامیاب نجکاری کے لیے اہم

ریاض سیزن میں ‘فلائنگ اوور سعودی’ کا آغاز، حسین مناظر کی فضائی سیر کی سہولت

اسرائیل خودساختہ صومالی لینڈ کو آزاد ریاست تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا

بھارت: بیوفائی کے شبے میں شوہر نے بیوی کو آگ میں جھونک دیا، بیٹی بچ گئی

تائیوان کو اسلحہ فروخت کرنے پر چین کی جانب سے امریکی دفاعی کمپنیوں، عہدیداروں پر پابندی

ویڈیو

کیا پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہیں؟

یو اے ای کے صدر کا دورہ پاکستانی معیشت کے لیے اچھی خبر، حکومت کا عمران خان کے ساتھ ممکنہ معاہدہ

پاکستان اور امارات کا مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق، اماراتی صدر محمد بن زاید النہیان دورہ پاکستان کے بعد واپس روانہ

کالم / تجزیہ

منیر نیازی سے آخری ملاقات

فقیہ، عقل اور فلسفی

پاکستان ایسے ہی ڈارلنگ نہیں بنا، محنتیں ہیں