پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی نجکاری ایک ایسا فیصلہ ہے جس پر ملک میں شدید بحث جاری ہے۔ ایک حلقہ اسے قومی اثاثے کی فروخت قرار دے رہا ہے، جبکہ دوسرا موقف یہ ہے کہ مسلسل خسارے میں چلنے والی قومی ایئرلائن کو موجودہ شکل میں برقرار رکھنا ریاست کے لیے ممکن نہیں رہا تھا۔
اصل سوال یہ نہیں کہ نجکاری کیوں کی گئی، بلکہ یہ ہے کہ آیا اس کے علاوہ کوئی قابلِ عمل راستہ موجود تھا یا نہیں۔
کیا نجکاری ناگزیر ہو چکی تھی؟
پی آئی اے گزشتہ کئی برسوں سے مالی بحران کا شکار رہی ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق ایئرلائن کو اوسطاً سالانہ تقریباً 35 ارب روپے کا خسارہ ہو رہا تھا، جو براہِ راست قومی خزانے سے پورا کیا جا رہا تھا۔
معاشی ماہرین کے مطابق اگر یہ صورتحال مزید برقرار رہتی تو ریاست کو یا تو پی آئی اے کی مکمل بندش کی طرف جانا پڑتا، یا بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے دباؤ میں سخت فیصلے کرنا پڑتے۔ اس تناظر میں نجکاری کو بقا اور بندش کے درمیان انتخاب کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
کیا پی آئی اے واقعی صرف دس ارب روپے میں فروخت ہوئی؟
یہ تاثر بھی زیرِ بحث ہے کہ پی آئی اے کو انتہائی کم قیمت پر فروخت کردیا گیا۔ تاہم نجکاری معاہدے سے متعلق دستیاب معلومات کے مطابق حکومت کو فوری طور پر 10 ارب روپے موصول ہوں گے، جبکہ بقیہ 25 فیصد حصص کے بدلے آئندہ برسوں میں تقریباً 45 ارب روپے مزید حاصل ہونے کی توقع ہے۔
یوں مجموعی مالی فائدہ تقریباً 55 ارب روپے بنتا ہے، تاہم حکومتی حکام کے مطابق اس معاہدے کا مقصد محض آمدن نہیں بلکہ ایئرلائن کو فعال اور قابلِ عمل بنانا ہے۔
125 ارب روپے کی سرمایہ کاری: معاہدے کی کلیدی شرط
نجکاری معاہدے کی ایک اہم شق کے تحت نئے مالک کو 125 ارب روپے کی لازمی سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ یہ سرمایہ کاری نئے طیاروں کی شمولیت، فلیٹ اپ گریڈیشن، سیفٹی اسٹینڈرڈز اور آپریشنل اصلاحات کے لیے مختص ہوگی۔
حکام کے مطابق یہی وہ شرط ہے جو ماضی میں ممکنہ خریداروں کے لیے رکاوٹ بنی رہی۔
خریدار کون ہے؟
پی آئی اے کو عارف حبیب کنسورشیم نے ٹیک اوور کیا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق مستقبل میں فوجی فرٹیلائزر کمپنی (FFC) کے اس کنسورشیم میں شامل ہونے کا امکان بھی موجود ہے، جسے ماہرین پاکستان کی تاریخ کی بڑی کارپوریٹ ایوی ایشن شراکت داری قرار دے رہے ہیں۔
غیر ملکی اثاثے: کیا بیچا گیا اور کیا نہیں؟
نجکاری معاہدے کے تحت پی آئی اے کے اہم غیر ملکی اثاثے، جن میں لندن، نیویارک اور پیرس کی قیمتی پراپرٹیز شامل ہیں، فروخت کا حصہ نہیں بنیں۔ یہ اثاثے بدستور ریاست کی ملکیت رہیں گے، جسے قومی مفاد کے تحفظ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ممکنہ خدشات کیا ہیں؟
سرمایہ کاری میں تاخیر: کیا نیا انتظامیہ 125 ارب روپے کی سرمایہ کاری بروقت مکمل کر پائے گی؟
منافع اور قومی ذمہ داری: کیا غیر منافع بخش مگر اسٹریٹیجک روٹس برقرار رہیں گے؟
ریگولیٹری دباؤ: کیا سول ایوی ایشن اتھارٹی نجی دباؤ سے آزاد رہ پائے گی؟
ملازمین کا مستقبل: ریٹائرمنٹ اسکیموں اور کنٹریکٹ سسٹم پر تنازعات کا خدشہ۔
ناکامی کی صورت میں کیا ہوگا؟ کیا ریاست کے پاس کنٹرولڈ ٹیک بیک یا اسٹریٹیجک پارٹنر کی تبدیلی کے مؤثر آپشنز موجود ہیں؟
نجکاری کے بعد ریاست کا کردار
ماہرین کے مطابق نجکاری کے بعد حکومت کا کردار ختم نہیں ہوتا بلکہ زیادہ حساس ہو جاتا ہے۔
ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں:
سالانہ آڈٹس اور سرمایہ کاری کی نگرانی
ایوی ایشن پالیسی میں قومی مفاد کا تحفظ
صارفین کے حقوق اور ٹکٹ قیمتوں پر نظر
ICAO اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے سامنے ریاستی ذمہ داریوں کی ادائیگی
اصل امتحان اب شروع ہوتا ہے
تجزیہ کاروں کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کوئی جشن نہیں بلکہ ایک مجبوری کے تحت کیا گیا فیصلہ ہے۔ اس کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ:
نجی آپریٹر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے
ریگولیٹر مکمل خودمختاری برقرار رکھے
حکومت نگران رہے، تماشائی نہ بنے
یہ معاملہ محض ایک ایئرلائن کا نہیں بلکہ پاکستان کے ایوی ایشن سسٹم، ریاستی ساکھ اور عوامی اعتماد سے جڑا ہوا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔














