پاکستان نے برطانیہ میں پاکستانی قونصل خانے کے باہر ہونے والے احتجاج کے دوران دھمکی آمیز اور قابلِ اعتراض بیانات پر قائم مقام برطانوی ہائی کمشنر کو باضابطہ احتجاجی مراسلہ (ڈیمارش) جاری کر دیا ہے۔
مزید پڑھیں: برطانیہ میں پاکستان کی عسکری قیادت کو دھمکیاں، فوری کارروائی کا مطالبہ
یہ احتجاج پاکستان تحریک انصاف کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا تھا۔ احتجاج کے دوران شرکا نے پاکستان کی مسلح افواج کی اعلیٰ قیادت کے خلاف نہایت اشتعال انگیز اور توہین آمیز زبان استعمال کی۔
بعض مظاہرین کی جانب سے سنگین نوعیت کی دھمکیاں بھی دی گئیں جن میں فوجی قیادت کو نشانہ بنانے سے متعلق بیانات شامل تھے۔ حکومتِ پاکستان نے برطانوی سرزمین سے دی جانے والی ان دھمکیوں کا سخت نوٹس لیا ہے۔
پاکستان نے برطانوی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ ہو۔
پاکستان نے امید ظاہر کی ہے کہ برطانوی قوانین کے تحت ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
پاکستان نے لندن اور اسلام آباد میں برطانوی حکام کو ویڈیو شواہد اور مکمل ٹرانسکرپٹ بھی فراہم کر دی ہے۔ یہ ویڈیو پاکستان تحریک انصاف یو کے کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کی گئی تھی جس میں ایک خاتون کی جانب سے فوجی قیادت کے خلاف تشدد پر اکسانے والا بیان دکھایا گیا۔ اس ویڈیو کی نشاندہی صحافی مرتضیٰ علی شاہ نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کی۔
برطانوی حکام کو ارسال کیے گئے باضابطہ خط میں اسلام آباد نے اس واقعے کو برطانوی سرزمین کے سنگین اور غیر معمولی غلط استعمال قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام دہشت گردی، تشدد اور ایک خودمختار ریاست کے اندرونی عدم استحکام پر اکسانے کے مترادف ہے۔
خط میں کہا گیا کہ یہ مواد نہ تو محض سیاسی تھا اور نہ ہی خطیبانہ بلکہ اس میں اقوامِ متحدہ کے رکن ملک کی اعلیٰ عسکری قیادت کے خلاف تشدد کو ہوا دینے اور قتل پر اکسانے کے واضح عناصر موجود تھے۔ خاط میں مزید کہا گیا کہ اس پیغام کو جان بوجھ کر پاکستان کے اندر سامعین تک پہنچایا گیا تاکہ بدامنی، تشدد اور ریاستی اداروں سے تصادم کو فروغ دیا جا سکے۔
مزید پڑھیے: برطانیہ میں پاکستان مخالف اشتعال انگیزی: پی ٹی آئی سے منسوب اکاؤنٹ پر تشویش، عالمی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ
پاکستان نے خبردار کیا کہ برطانیہ سے کام کرنے والے بعض سیاسی پلیٹ فارمز ماضی میں بھی پاکستان میں بدنظمی اور تشدد پر اکساتے رہے ہیں اور بیرونِ ملک رہتے ہوئے اندرونی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
خط میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1373 اور برطانیہ کے ٹیررازم ایکٹ 2006 سمیت مختلف قانونی فریم ورکس کا حوالہ دیا گیا جو دہشت گردی پر اکسانے، اس کی تعریف یا بالواسطہ ترغیب کو جرم قرار دیتے ہیں۔ خط میں بین الاقوامی قانون کے ان اصولوں کو بھی اجاگر کیا گیا جن کے تحت کسی ریاست کی سرزمین کو دوسری ریاست کے خلاف تشدد پر اکسانے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
مراسلے میں واضح کیا گیا کہ آزادیٔ اظہار کا مطلب قتل یا شہری تشدد پر اکسانے کی آزادی نہیں، جبکہ سیاسی پناہ دہشت گردی یا بیرونِ ملک عدم استحکام پھیلانے کا استثنا فراہم نہیں کرتی۔
پاکستان نے باضابطہ طور پر برطانیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ ملوث افراد کی شناخت، تحقیقات اور قانونی کارروائی کی جائے، تحریک انصاف یو کے کے کردار کا جائزہ لیا جائے، اور ایسے قانونی یا انتظامی اقدامات کیے جائیں جن سے برطانوی سرزمین کو پاکستان میں تشدد پھیلانے کے لیے استعمال ہونے سے روکا جا سکے۔
خط کے اختتام پر کہا گیا کہ یہ معاملہ انسداد دہشت گردی، بین الاقوامی قانون اور ذمہ دار ریاستی طرزِ عمل سے متعلق برطانیہ کے عزم کا ایک اہم امتحان ہے اور کسی قسم کی عدم کارروائی کو برداشت کے مترادف سمجھا جا سکتا ہے، جس سے دوطرفہ اعتماد متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
برطانیہ کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن میٹ کینل کو وزارت خارجہ طلب کرکے برطانیہ میں پیش آئے واقعے پر احتجاج کیا گیا۔
برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ اس وقت ملک میں موجود نہیں تھیں جس کے باعث وزارت خارجہ کی جانب سے برطانیہ کے قائم مقام ہائی کمشنر کو ڈیمارش جاری کیا گیا۔
وزرا کی تصدیق
پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے 2 وزرائے مملکت نے جمعے کے روز تصدیق کی ہے کہ پاکستانی حکومت نے برطانوی حکام کو ایک باضابطہ خط ارسال کیا ہے جس میں سوشل
میڈیا پر گردش کرنے والے ایک ویڈیو بیان سمیت اشتعال انگیز بیانات پر کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: برطانیہ میں پاکستان مخالف اشتعال انگیزی: پی ٹی آئی سے منسوب اکاؤنٹ پر تشویش، عالمی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ
وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری اور وزیر مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی نے اس پیشرفت کی تصدیق کی۔
بلال اظہر کیانی نے کہا کہ مذکورہ ویڈیو میں مسلح افواج کے سربراہ کو دھمکی دی گئی، جب کہ طلال چوہدری نے کسی سیاسی جماعت کا نام لینے سے گریز کیا، تاہم کیانی نے اس معاملے میں تحریک انصاف کے کردار کا ذکر کیا۔
سوشل میڈیا پر زیر گردش ویڈیو میں ایک خاتون بغیر کسی کا نام لیے ایک شخصیت کے خلاف نفرت انگیز باتیں کرتی دکھائی دیتی ہیں جبکہ ویڈیو میں موجود افراد کے ہاتھوں میں تحریک انصاف کے جھنڈے بھی نظر آ رہے ہیں۔
ویڈیو سے متعلق سوال پر وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ پاکستان نے برطانیہ کو باضابطہ طور پر خط لکھا ہے اور توقع کی ہے کہ وہ اپنے قوانین اور نظام انصاف کے مطابق کارروائی کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اداروں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف قانونی اقدامات کرے۔
طلال چوہدری نے بتایا کہ اس سے قبل بھی ریاستی اداروں اور سیاسی شخصیات کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال پر شکایات سامنے آتی رہی ہیں، اور اس واقعے کی ویڈیو شواہد کے طور پر موجود ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ معاملہ نہ تو سیاست سے متعلق ہے اور نہ ہی آزادی اظہار بلکہ یہ بین الاقوامی قوانین اور برطانوی قوانین بالخصوص ٹیررازم ایکٹ 2006 کی خلاف ورزی بھی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر ریاست اس بات کی ذمہ دار ہے کہ اس کی سرزمین پر مقیم افراد یا پناہ لینے والے کسی دوسری خودمختار ریاست کے خلاف تشدد یا بغاوت پر اکسانے میں ملوث نہ ہوں۔
وزیر مملکت داخلہ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ویڈیو میں مخصوص نوعیت کی دھمکی دی گئی جو اسے ایک سنجیدہ اور ہدفی معاملہ بناتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے یہ تمام تحفظات برطانوی حکام کے سامنے رکھ دیے ہیں اور امید ظاہر کی کہ برطانوی حکومت اس پر کارروائی کرے گی بصورت دیگر پاکستان کے پاس دیگر قانونی آپشنز بھی موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: برطانیہ: سابق مشیر شہزاد اکبر پر نامعلوم شخص کی جانب سے تشدد، ناک اور جبڑا توڑ دیا
دوسری جانب وزیر مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی نے اس واقعے کو ناقابل قبول اور افسوسناک قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف سیاست کی آڑ میں تشدد، دھمکیوں اور آزادی اظہار کے غلط استعمال کو فروغ دیتی رہی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پارٹی نے سیاسی احتجاج کے نام پر مسلح افواج کے سربراہ کو دھمکی دے کر حد پار کر دی ہے۔
کیانی نے تحریک انصاف کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بھی تشدد کو سیاست کے پردے میں چھپایا گیا اور ایسے اقدامات کسی صورت قابل قبول نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت سب سے پہلے برطانوی حکومت سے فوری قانونی کارروائی اور تحقیقات کا مطالبہ کرے گی تاہم دیگر قانونی راستوں پر غور بھی کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا تھا کہ ریاستی اداروں کے خلاف مہم چلانے والے بیرون ملک مقیم افراد کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: قومی ایئرلائن کا برطانیہ کے لیے فلائٹ آپریشن بڑھانے کا فیصلہ، مارچ سے لندن پروازیں شروع ہوں گی
4 دسمبر کو برطانوی ہائی کمشنر جین میریئٹ سے ملاقات کے دوران سابق معاونِ خصوصی شہزاد اکبر اور یوٹیوبر عادل راجہ سے متعلق حوالگی کی دستاویزات بھی جمع کروائی گئی تھیں۔














