اپریل میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سے آج کے دن تک ہر طلوع ہونے والا دن اس بات کی تصدیق کر رہا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت صفر بٹا صفر ثابت ہوئی ہے، اتحادیوں نے اقتدار کا جو ڈھول اپنے گلے میں ڈالا تھا وہ ان کے گلے کا پھندا بن چکا ہے، یہ ناکام ٹولا چاہ کر بھی اس سے پیچھا نہیں چُھڑا پا رہا۔ یہ آگے کنواں پیچھے کھائی کی سی صورتحال ہے کہ اگر اقتدار میں رہتے ہیں تو انتخابی حلقوں میں منہ دکھانے کے لائق نہیں رہتے اور اگر الیکشن کی طرف جاتے ہیں تو عمران خان کی انتخابی فتح نوشتہ دیوار نظر آتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ جو انتخابات 2023ء میں ہونے ہیں، انہیں ایک سال کے لیے ملتوی کر دیا جائے، اس التواء کا مقصد حالات میں بہتری کی ایسی امکانی کوشش ہے جو ان پی ڈی ایم کو انتخابات میں متوقع ہزیمت سے بچا سکے، مگر معیشت جس تیزی سے روبہ زوال ہے اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ 2024ء بلکہ اس سے بھی آگے معیشت میں بہتری کے کوئی آثار نہیں ہیں۔
ایسے میں کچھ جُگادریوں نے اس مشکل صورتحال کا حل ایک ایسی ٹیکنو کریٹ حکومت کی صورت میں پیش کیا ہے، جو اتحادی حکومت کا سارا گند اپنے سر لے لے گی، یوں پی ڈی ایم کو یہ کہنے کا موقع مل سکے گا کہ اگر ہمیں مدت پوری کرنے دی جاتی تو یہ نہ ہوتا جو ہو چکا ہے۔
ایسے میں پی ٹی آئی یہ سمجھنے اور کہنے میں حق بجانب ہے کہ پہلی غلطی پی ٹی آئی کی حکومت ختم کر کے کی گئی اور اب دوسری غلطی انتخابات کو التواء میں ڈال کر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بہرحال پی ٹی آئی نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے تاکہ پنجاب کی نگراں حکومت کو پابند کیا جاسکے کہ وہ نوے دن میں انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے۔اگر حکومت کسی نگراں سیٹ اپ کی رَیت میں شترمرغ کی طرح منہ چھپانا چاہتی ہے تو یہ مسئلے کا حل نہیں ہے، بلکہ اس سے مسائل مزید بڑھ جائیں گے۔
دوسری طرف اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پی ٹی آئی نے اپنی دو صوبائی حکومتوں کو خیر باد کہہ کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں ماری بلکہ کلہاڑی پر پاؤں مار ہے۔ عمران خان کے اس جذباتی فیصلے کا سارا فائدہ ان کے مخالفین کو ہوا۔حکومتوں کے خاتمے سے جو فضا بنی ہے اس نے پی ٹی آئی کے ایک عام کارکن ہی کا نہیں بلکہ قائدین کا مورال بھی ڈاؤن کیا ہے۔ مگر خان نے اپنی سنگین سیاسی غلطی کے باوجود اپنے مزاج کے مطابق ایک بار پھر حالات کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے بدلتی صورتحال کو زیادہ بہتر طور پر ہینڈل کرنے کا ایک اور پلان وضع کیا، جس کے مطابق متواتر کئی ماہ تک زمان پارک کو سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنائے رکھنے کے بعد عمران خان نے ایک بار پھر بنی گالا لَوٹنے اور اسلام آباد میں بیٹھ کر سیاسی سرگرمیاں انجام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔عمران خان کی اسلام آباد واپسی ایسے سب لوگوں کے منہ تھپڑ ہو گی جو یہ پروپیگنڈہ کرتے رہے کہ وہ گرفتاری کے ڈر سے اسلام آباد نہیں آرہے، حالانکہ یہ بات ایک بچہ سمجھتا ہے کہ جسے گرفتاری کا ڈر ہو وہ اپنے ہاتھوں اپنی ہی حکومتوں کا خاتمہ نہیں کرتا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان بنی گالا آکر حکومت کے لیے مزید کیا چیلنجز کھڑے کرتے ہیں۔