عمران خان سوشل میڈیا کی جنگ بھی ہار رہے ہیں؟

جمعرات 25 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں سابق حکمراں جماعت تحریک انصاف کے رہنما اور ورکرز نو مئی کے پرتشدد احتجاج کے بعد سول اور ملٹری کورٹس میں مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔

سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے بہت قریب سمجھے جانے والے متعدد پارٹی رہنما ان کا ساتھ مکمل یا جزوی طور پر چھوڑ چکے ہیں۔

جلاؤ گھیرا، تشدد، پرتشدد سرگرمیوں پر اکسانے جیسے الزامات میں پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کی مسلسل گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے ایسے میں پی ٹی آئی کی طاقت سمجھے جانے والے سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر صورتحال ملی جلی ہے۔

ماضی میں عمران خان کی حمایت کرنے والے ایکٹیوسٹ ہوں یا صحافت سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے اندرون ملک اور بیرون ملک مقیم افراد، کئی ایسے ہیں جو ماضی جیسے جوش وجذبے کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔

چند روز قبل تک عمران خان اور تحریک انصاف کی سوشل میڈیا اسٹریٹیجی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرنے والے ٹوئپس کا یہ بدلا انداز دیکھنے والوں سے اوجھل نہ رہا تو کئی افراد نے اس کی نشاندہی کی۔

پاکستان صحافی نعمت خان نے ایسے ہی ایک تبصرے میں برطانیہ میں مقیم پی ٹی آئی ایکٹیوسٹ احتشام الحق کی ٹویٹ پر تبصرہ میں لکھا کہ ’احتشام بھی بدل گئے ہیں۔‘

امریکا میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے فواد چوہدری کی ایک سابقہ ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے شعری تبصرہ کیا جو ’کل اور آج‘ کے فرق سے متعلق تھا۔

اندرون ملک مقیم سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کا انداز اور لہجہ تو بدلا البتہ پاکستان سے باہر مقیم کچھ پی ٹی آئی حامی اب بھی سابقہ روش برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

ان میں کچھ افراد کو مسلسل ’غلط خبریں پھیلانے اور یوٹیوب ڈالرز کے لیے قوم کو گمراہ کرنے‘ کے الزام کا بھی سامنا ہے۔

عمران خان کی بظاہر حمایت اور فوج کی مخالفت کرنے والے بیرون ملک مقیم افراد میں سے ایک عادل راجہ کے متعلق دعوی کیا گیا کہ ’صرف تین دن میں ایسی جعلی خبریں پھیلا کر اس شخص نے ایک کروڑ یوٹیوب سے کمایا۔‘

ماضی میں تحریک انصاف کی سوشل میڈیا سرگرمی کا اہم حصہ رہنے والے ڈاکٹر فرحان ورک ان افراد میں سے ہیں جو نہ صرف پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کر چکے ہیں بلکہ قیادت اور پالیسیوں میں تضادات کی نشاندہی کرتے ہوئے دیگر ورکرز کو بھی انتہائی اقدام سے باز رہنے کی مسلسل تلقین جاری رکھے ہوئے ہیں۔

لاہور میں مقیم مقدس فاروق اعوان چند روز قبل تک تحریک انصاف کی حامی ایکٹیوسٹ شمار کی جاتی تھیں، اب وہ بھی ماضی کے برعکس عمران خان یا ان کے موقف کو ہی درست مان کر پیش کرتے رہنے کے بجائے متبادل تجویز کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

خود کو عمران خان کا حامی قرار دینے والے ٹوئپس کی جارحانہ سرگرمی پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ ایسا کرنے والے افراد نے پی ٹی آئی ورکرز کو خبردار کیا کہ وہ مذکورہ عناصر سے خود کو بچائے رکھیں۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی عرفان الحق نے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ ’پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنوں سے گزارش ہے کہ باہر بیٹھے بھگوڑوں کے اشتعال دلانے پر بالکل توجہ نہ دیں۔‘

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی رضوان غلزئی نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ ’ایک طرف میجر عادل راجہ نے مظاہرین کو اکسانے کی کوشش کی اور دوسری طرف کچھ سرکاری صحافی حکومت کو سیاسی کارکنان کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انتشار کے بینفشریز اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘

ڈیجیٹل میڈیا کے شعبہ سے وابستہ ٹیکنالوجی ماہر عمر سیف نے صورتحال پر تبصرہ میں پی ٹی آئی کو ’ناکام تجربہ سے سیکھنے‘ کا مشورہ دیا۔

پی ٹی آئی ایکٹیوسٹ اور صحافی ملیحہ ہاشمی نے عمر سیف سے اختلاف کیا تو موقف اپنایا کہ ’آپ کی ٹویٹ کے نیچے تبصرہ کرنے والے نوجوانوں کی اکثریت آپ سے بالکل بھی متفق نہیں ہے۔‘

انور لودھی بھی سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے فعال حامی تسلیم کیے جاتے ہیں۔ وہ اب بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو عمران خان کو ہی مسائل کا حل قرار دیتے ہیں۔

پی ٹی آئی کی خواتین کارکنان کے خلاف قانونی کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ ’اخبارات اور تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔۔ بنگلہ دیش میں بھی عورتوں کے ریپ کیے گئے تھے۔‘

خود تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی ملکی صورتحال پر تبصروں اور اپنے ردعمل کے لیے ماضی کی نسبت ٹوئٹر پر زیادہ انحصار کر رہے ہیں۔

حالیہ دنوں میں انہوں نے ماضی کے برعکس ایک ایک دن میں متعدد ٹوئٹس کے ذریعے اپنے فالوورز تک اپنا پیغام پہنچایا ہے۔

نو مئی کو سرکاری و نجی اور عسکری تنصیبات پر تحریک انصاف کے ورکرز کے حملوں کے بعد ان اقدامات کی مخالفت اور فورسز کی حمایت کرنے والوں کی تعداد میں بھی تبدیلی آئی ہے۔

ٹیلی ویژن میزبانی شفاعت علی نے ٹائم لائنز کے بدلے ماحول کا مشاہدہ کیا تو لکھا کہ ’میری ٹائم لائن پر اتنے سارے فوج کے حمایتی پہلے سے تھے یا سبھی نئے نئے اگے ہیں۔‘

بحیثیت مجموعی پاکستان میں سوشل ٹائم لائنز کی کیفیت یہ ہے کہ مشہور بیانیے پر گفتگو کر کے انگیجمنٹ لینے والے بیشتر اکاؤنٹس خاموش یا محتاط ہیں البتہ عمران خان کے کچھ حامی اب بھی اختلافی آوازیں بلند کر رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp